فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَىٰ
لیکن شیطان نے اس کے دل میں وسوسہ (٥٣) پیدا کیا، کہا اے آدم ! کیا میں تمہیں وہ درخت بتا دوں جسے کھا کر تم جنت میں ہمیشہ رہو گے اور کبھی پرانی نہ ہونے والی حکومت پالو گے۔
1۔ فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ....: قرآن میں شیطان کے وسوسہ انداز ہونے اور پھسلانے کی نسبت بعض آیات میں صرف آدم علیہ السلام کی طرف کی گئی ہے اور بعض میں آدم و حوا دونوں کی طرف۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں تو شیطان آدم علیہ السلام ہی کے دل میں وسوسہ انداز ہوا ہے، حوا علیھا السلام کا ذکر ان کے تابع ہونے کی حیثیت سے ہے، لہٰذا عوام میں جو یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ شیطان نے پہلے حوا علیھا السلام کو پھسلایا اور پھر ان کے ذریعے سے آدم علیہ السلام کو قابو کیا، وہ قطعی غلط اور لغو ہے اور اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔ دونوں آیات کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۲۰، ۲۱)۔ 2۔ وَ عَصٰى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى....: آدم علیہ السلام کا واقعہ نہایت عجیب ہے کہ اتنا عظیم شخص، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، فرشتوں سے اس کو سجدہ کروایا، کمال عقل بخشی، اپنی جنت میں ہر نعمت عطا فرمائی، اسے صاف لفظوں میں شیطان کی دشمنی سے آگاہ کر دیا اور دشمن کی بات ماننے پر جنت سے نکلنے کی تنبیہ بھی فرما دی، اتنے عظیم شخص کو اس کے اتنے مہربان پروردگار نے صرف ایک چیز سے منع فرمایا، مگر وہ اپنے رب کی اتنی عنایتوں اور شیطان کی واضح دشمنی کے علم کے باوجود اس کے ورغلانے سے اپنے رب کی حکم عدولی کیسے کر گزرا؟ جو شخص بھی اس واقعہ میں غور و فکر کرے گا اس کا تعجب بڑھتا ہی جائے گا اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اللہ کی تقدیر کو نہ کوئی روک سکتا ہے اور نہ ہٹا سکتا ہے اور یہ کہ دلیل جتنی بھی واضح اور مضبوط ہو اس سے تبھی فائدہ حاصل ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ فرمایا ہو اور اسے مقدر فرمایا ہو۔ (رازی) صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں موسیٰ علیہ السلام کے آدم علیہ السلام سے سوال اور ان کے جواب سے بھی یہی بات سمجھ میں آتی ہے۔ اس حدیث سے اگر کوئی یہ استدلال کرے کہ گناہ جب اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھ دیا ہے تو ہمارا کیا قصور ہے اور ہمیں ملامت کیوں کی جاتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آدم علیہ السلام نے توبہ قبول ہونے اور گناہ معاف ہونے کے بعد یہ جواب دیا ہے، اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جب ان سے پوچھا: ﴿ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ ﴾ [ الأعراف : ۲۲ ] کہ کیا میں نے تمھیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا تو انھوں نے نہ تقدیر کا بہانہ بنایا اور نہ اپنا قصور اللہ تعالیٰ کے ذمے لگایا، بلکہ صاف تسلیم کیا: ﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ﴾ [ الأعراف : ۲۳ ] ’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہو جائیں گے۔‘‘ اس کے برعکس ابلیس نے اپنا گناہ ماننے کے بجائے اسے اللہ تعالیٰ کے ذمے لگا دیا: ﴿ قَالَ فَبِمَا اَغْوَيْتَنِيْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ ﴾ [ الأعراف : ۱۶ ] ’’اس نے کہا پھر اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔‘‘ گناہ کی معافی کے بغیر تقدیر کا عذر غلط ہے۔ ایک اور جواب جو اس سے بھی قوی ہے، یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آپ نے نافرمانی کیوں کی تھی؟ بلکہ انھوں نے انھیں اپنی اولاد کو جنت سے نکالنے اور مصیبت میں ڈالنے پر ملامت کی تھی، حالانکہ مصیبت پر ملامت نہیں کی جاتی، خواہ وہ کسی غلطی کی وجہ سے آئی ہو، بلکہ تسلی دی جاتی ہے، مثلاً اگر کسی کی غلطی کی وجہ سے کوئی حادثہ ہو جائے تو اسے غلطی پر ملامت کے بجائے مصیبت میں تعزیت کی جاتی ہے کہ اللہ کی تقدیر میں ایسا ہی لکھا تھا، اس لیے غم مت کرو۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِحْتَجَّ آدَمُ وَ مُوْسٰی، فَقَالَ مُوْسَی يَا آدَمُ ! أَنْتَ أَبُوْنَا، أَنْتَ خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ أَنْتَ مُوْسَی، اصْطَفَاكَ اللّٰهُ بِكَلَامِهِ، وَخَطَّ لَكَ بِيَدِهِ، أَتَلُوْمُنِیْ عَلٰی أَمْرٍ قَدَّرَهُ اللّٰهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِيْ بِأَرْبَعِيْنَ سَنَةً؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَحَجَّ آدَمُ مُوْسَی، فَحَجَّ آدَمُ مُوْسَی)) ’’آدم اور موسیٰ علیھما السلام کی بحث ہو گئی تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا، تم ہمارے باپ ہو، تم نے ہمیں نامراد کر دیا اور ہمیں جنت سے نکال دیا۔ ‘‘ تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا : ’’اے موسیٰ! اللہ عز وجل نے تمھیں اپنے کلام کے لیے چنا اور تمھارے لیے اپنے ہاتھ سے (کتاب) لکھی۔ اے موسیٰ! کیا تم مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کرتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے مجھ پر طے کر دیا تھا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تو آدم، موسیٰ پر دلیل میں غالب آ گئے، تو آدم، موسیٰ پر دلیل میں غالب آ گئے۔‘‘ [ مسلم، القدر، باب حجاج آدم و موسٰی صلی اللّٰہ علیہما وسلم : ۲۶۵۲ ]