وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا
اور ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد و پیمان (٥٠) لیا تھا، تو وہ بھول گئے اور ہم نے ان کے ارادے میں پختگی نہیں پائی۔
1۔ وَ لَقَدْ عَهِدْنَا اِلٰى اٰدَمَ....: ’’عَهِدَ إِلَيْهِ ‘‘ کا معنی ’’ أَوْصَاهُ ‘‘ ہے کہ اس نے اسے تاکید کی۔ تاکید سے مراد مخصوص درخت کے قریب نہ جانے کا حکم ہے۔ ’’نَسِيَ‘‘ کا معنی عام طور پر ’’وہ بھول گیا‘‘ آتا ہے، مگر یہاں مراد جان بوجھ کر عمل ترک کرنا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ابلیس نے آدم و حوا علیھما السلام کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا اور ان دونوں کے لیے اپنے خیر خواہ ہونے کی قسم کھائی تھی: ﴿ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّا اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ﴾ [ الأعراف : ۲۰ ] ’’تم دونوں کے رب نے تمھیں اس درخت سے منع نہیں کیا مگر اس لیے کہ کہیں تم دونوں فرشتے بن جاؤ یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہو جاؤ۔‘‘ معلوم ہوا کہ آدم علیہ السلام کو وہ درخت کھاتے وقت اللہ تعالیٰ کا حکم یاد تھا، مگر شیطان کے وسوسے سے لالچ میں آ کر حکم عدولی کر بیٹھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے فعل کو عصیان (نافرمانی) قرار دیا، فرمایا: ﴿ وَ عَصٰى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى ﴾ [ طٰہٰ : ۱۲۱ ] ’’اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بھٹک گیا۔‘‘ بھول کر کیے ہوئے عمل کو نافرمانی نہیں کہا جاتا۔ طبری نے حسن سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا ہے کہ ’’ فَنَسِيَ يَقُوْلُ فَتَرَكَ‘‘ یعنی ’’ فَنَسِيَ ‘‘ کا معنی ’’اس نے عمل ترک کر دیا‘‘ ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔ 2۔ قرآن میں آدم علیہ السلام کا یہ قصہ چھٹی بار بیان ہو رہا ہے، اول سورۂ بقرہ، دوم اعراف، سوم حجر، چہارم بنی اسرائیل، پنجم کہف اور ششم یہاں اور ہر جگہ ایک خاص مقصد کے تحت مختلف انداز سے اس قصے کو دہرایا گیا ہے۔ یہاں ماقبل سے اس کی مناسبت کے سلسلہ میں چند وجوہ بیان کی گئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کا تعلق آیت: ﴿ كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ مَا قَدْ سَبَقَ﴾ [ طٰہٰ : ۹۹ ] (اسی طرح ہم تجھ سے ان چیزوں کی کچھ خبریں بیان کرتے ہیں جو پہلے گزر چکیں) سے ہے، یعنی اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے کہ ہم قصے بیان فرمائیں گے، چنانچہ اس کے تحت آدم علیہ السلام کا قصہ بیان فرما دیا۔ ایک مناسبت یہ ہے کہ ’’ رَبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا ‘‘ کہنے کا حکم دینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں اضافے کے لیے آدم علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا اور ایک مناسبت وہ ہے جو اوپر شاہ عبد القادر رحمہ اللہ کی توضیح میں گزر چکی ہے۔