وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور تم میں جو وفات پا جائیں، اور اپنے پیچھے اپنی بیویاں چھوڑ جائیں، وہ اپنی بیویوں کے لیے وصیت کرجائیں (335) کہ وہ سال بھر فائدہ اٹھائیں، اور انہیں (شوہر کے گھر سے) نکالا نہ جائے، اگر وہ (خود ہی) نکل جائیں، اور نکاح کے بارے میں مناسب انداز میں کچھ کریں، تو تم پر کوئی گناہ نہیں، اور اللہ زبردست اور بڑا صاحب حکمت ہے
وَ الَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ يَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا....:بہت سے علماء نے اس آیت کو اس آیت سے منسوخ قرار دیا ہے جو اس سے پہلے گزر چکی ہے، جس میں فوت شدہ خاوند کی بیوی کی عدت چار مہینے دس دن بیان کی گئی ہے۔ اس صورت میں یہ آیت تلاوت کی ترتیب کے لحاظ سے بعد میں آنے کے باوجود ترتیب میں پہلے آنے والی آیت کے ساتھ منسوخ ٹھہرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زیر تفسیر آیت کی رو سے پہلے اس عورت کی عدت ایک سال تھی، پھر اسی سورت کی آیت(۲۳۴) سے چار ماہ دس دن قرار دی گئی۔ چنانچہ عدت ایک سال ہونا منسوخ ہو گیا اور چار ماہ دس دن کے بعد رہائش اور کھانے وغیرہ کا خرچہ آیت میراث (نساء:۱۱، ۱۲) کے ساتھ منسوخ ہو گیا، کیونکہ اس میں تمام وارثوں کے حصے مقرر کر دیے گئے۔ اب وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ حالانکہ دونوں آیات کے الفاظ پر غور کریں تو پہلی آیت میں واضح حکم ہے کہ ایسی عورت چار ماہ دس دن نکاح نہیں کر سکتی، بلکہ اپنے آپ کو انتظار میں رکھے گی۔ اسے عدت کہتے ہیں، جب کہ دوسری آیت میں ایک سال اپنے آپ کو انتظار میں رکھنے اور نکاح نہ کرنے کا ذکر ہی نہیں، تو اس آیت کی رو سے عدت ایک سال کیسے بن گئی؟ اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ یہ پہلی آیت سے منسوخ نہیں، نہ ہی ترتیب تلاوت میں کوئی خلل ہے۔ رہ گیا نان و نفقہ اور رہائش کامنسوخ ہونا تو جو علماء منسوخ بتاتے ہیں وہ سورۂ نساء کی آیتِ میراث سے منسوخ بتاتے ہیں، جو سورۂ بقرہ کے بعد اتری ہے۔ اس لیے زیر تفسیر آیت کسی طرح بھی پہلی آیت کے ساتھ منسوخ نہیں۔ اگر اس کا کچھ حصہ منسوخ ہے بھی تو سورۂ نساء کے ساتھ منسوخ ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں، اس میں عدت بیان ہی نہیں ہوئی، بلکہ میت کے اولیاء کو وصیت کا ذکر ہے کہ وہ عورت کی دل جوئی کی خاطر اور مرنے والے سے اظہار محبت و اخلاص کے طور پر چار ماہ دس دن کے بعد مزید سات ماہ بیس دن اسے اپنے شوہر کے گھر میں رہنے دیں۔ ہاں اگر عورت چار ماہ دس دن یا وضع حمل کے بعد اپنی مرضی سے اس گھر سے منتقل ہونا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ آیتِ میراث کے باوجود چار ماہ دس دن اس گھر میں رہنے کا لازمی حکم دے سکتا ہے تو سال کے باقی ماندہ دن اختیاری طور پر وہاں رہنے کی اجازت کا حکم بھی دے سکتا ہے اور یہ آیتِ میراث کے خلاف نہیں۔ یہ رائے امام مجاہد بن جبر، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہما اللہ اور دوسرے کئی اہل علم کی ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اسے قوی قرار دیا ہے اور اس سے قرآن کی آیات کی ترتیب کا حسن بھی باقی رہتا ہے۔