وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا
اور لوگ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں سوال (٤١) کرتے ہیں، تو آپ کہہ دییے کہ میرا رب انہیں ریزہ ریزہ کر کے اڑا دے گا۔
1۔ وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ....: قرطبی نے فرمایا کہ قرآن مجید میں جہاں بھی کسی سوال کا ذکر آیا ہے اس کے لیے جواب میں ’’قُلْ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ صرف اس مقام پر فاء کے ساتھ ’’ فَقُلْ ‘‘ آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے تمام مقامات پر ان سوالات کا جواب ہے جو ہو چکے تھے، یہاں فاء اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ ہونے والے سوال کا جواب دیا کہ ’’ فَإِنْ سَأَلُوْكَ فَقُلْ.... ‘‘ یعنی اگر وہ تجھ سے پوچھیں تو کہہ دینا.....۔ یعنی فاء دلیل ہے کہ اس سے پہلے شرط محذوف ہے۔ 2۔ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا....: صور پھونکنے کے ساتھ قیامت قائم ہونے اور تمام لوگوں کے جمع کرنے کے ذکر پر منکرین قیامت کی طرف سے سوال آنے والا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب پہلے ہی دے دیا کہ ان کے خیال میں اتنے بلند و بالا اور محکم پہاڑوں کو ان کی جگہ سے کوئی ہلا نہیں سکتا، اس لیے وہ پوچھیں گے کہ ان پہاڑوں کا کیا بنے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ پوچھیں تو آپ ان سے کہہ دیں کہ میرا رب انھیں اڑا کر بکھیر دے گا۔ ’’يَنْسِفُهَا‘‘ کی تاکید’’نَسْفًا ‘‘کے ساتھ فرمائی، تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ’’يَنْسِفُ‘‘ اپنے اصل معنی میں نہیں ہے بلکہ مجاز ہے۔ یعنی فی الحقیقت اللہ تعالیٰ انھیں ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا۔ پہاڑوں پر گزرنے والی حالتوں کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نبا (۲۰) کی تفسیر۔ ’’ قَاعًا ‘‘میدان۔ ’’صَفْصَفًا ‘‘ ہموار۔