سورة طه - آیت 104

نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہ لوگ جو کہیں گے (٤٠) اسے ہم خوب جانتے ہیں، جب کہ ان میں سب سے اچھی رائے والا کہے گا کہ تم لوگ تو صرف ایک دن ٹھہرے تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ....: ’’اَمْثَلُ‘‘ بمعنی ’’أَفْضَلُ‘‘ہے۔ ’’ اَلْمَثَالَةُ ‘‘ یعنی ’’اَلْفَضْلُ۔‘‘ ’’ طَرِيْقَةً ‘‘ سب سے اچھے طریقے والا سے مراد یہاں سب سے اچھی رائے والا ہے۔ اسے زیادہ اچھی رائے والا اور عقل مند اس لیے فرمایا کہ اس نے دنیا کے عارضی اور ختم ہونے کو اور آخرت کے ہمیشہ اور باقی رہنے کو دوسروں سے زیادہ سمجھا، اس لیے اس نے کہا کہ دس راتیں کہاں، تم تو ایک دن سے زیادہ دنیا میں نہیں ٹھہرے۔ طبری نے فرمایا کہ قیامت کی ہولناکی انھیں دنیا کا عیش و عشرت ایسا بھلائے گی کہ وہ دنیا میں رہنے کی صحیح مدت بھی نہیں بتا سکیں گے۔ دیکھیے سورۂ مومنون (۱۱۲ تا ۱۱۴) اور روم (۵۵)۔