يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ ۚ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا
جس دن صور (٣٩) پھونک دیا جائے گا اور ہم مجرموں کو اس دن میدان محشر میں اکٹھا کریں گے درآنحلیکہ ان کی آنکھیں (مارے خوف کے) نیلی پتھرائی ہوئی ہوں گئی.
يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ....: یہ پچھلی آیات میں مذکور ’’يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ‘‘سے بدل ہے جو قیامت کے دن کی وضاحت کر رہا ہے۔ ’’ الصُّوْرِ ‘‘ کی تشریح کے لیے دیکھیے سورۂ انعام (۷۳) اور کہف (۹۹)۔ ’’ زُرْقًا‘‘ ’’أَزْرَقُ‘‘ کی جمع ہے، جس کا معنی نیلے رنگ والا ہے۔ یہاں اس کے دو معنی مراد ہو سکتے ہیں، ایک نیلے جسم اور نیلے چہروں والے، مراد سیاہ رنگ والے، کیونکہ جلی ہوئی جلد نیلگوں کالی ہو جاتی ہے۔ اس کی ہم معنی آیت کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۰۶)۔ دوسرا معنی ’’اندھے‘‘ ہے، کیونکہ بہت نیلی آنکھ اندھے آدمی کی ہوتی ہے، یعنی قیامت کے دن اندھے اٹھائے جائیں گے، اس کی ہم معنی آیت کے لیے دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۱۲۴، ۱۲۵)۔ طبری نے صرف یہی معنی بیان فرمایا ہے۔