قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ ۖ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّن تُخْلَفَهُ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ إِلَٰهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ۖ لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا
تو موسیٰ نے کہا (٣٥) تم دور ہوجاؤ اب تم (بخار ابھر جانے کے ڈر سے) زندگی بھر لوگوں سے یہی کہتے رہو گے کہ مجھے کوئی نہ چھوئے، اور قیامت میں تیرے عذاب کا ایک اور وعدہ ہے جس کی تمہارے ساتھ خلاف ورزی نہیں ہوگی، اور اپنے معبود کو دیکھو (٣٦) جس کی عبادت پر تم جمے رہے تھے، ہم اسے یقینا جلا دیں گے، پھر اس کی راہ دریا میں بکھیر دیں گے۔
1۔ قَالَ فَاذْهَبْ فَاِنَّ لَكَ فِي الْحَيٰوةِ ....:’’ مِسَاسَ ‘‘ ’’ قَاتَلَ يُقَاتِلُ مَقَاتَلَةً وَ قِتَالًا ‘‘ کی طرح باب مفاعلہ کا مصدر ہے جس میں مشارکت پائی جاتی ہے، یعنی ایک دوسرے کو چھونا، ہاتھ لگانا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ زندگی بھر کے لیے ایسی بیماری اور عذاب میں مبتلا ہوا کہ وہ کسی کو ہاتھ لگاتا یا کوئی اسے ہاتھ لگاتا، دونوں صورتوں میں اسے شدید تکلیف ہوتی، جس کی حقیقت اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ وہ اس سے بچنے کے لیے خود ہی کہتا پھرتا کہ نہ میں تمھیں ہاتھ لگاتا ہوں اور نہ تم مجھے ہاتھ لگاؤ۔ بعض تابعین نے کہا ہے کہ ہاتھ لگنے کی صورت میں سامری اور دوسرے شخص دونوں کو بخار چڑھ جاتا تھا، مگر انھوں نے اس خبر کا ذریعہ نہیں بتایا۔ زندگی ہی میں تمام انسانوں سے اس کا تعلق کاٹ دیا گیا اور وہ تنہائی کے بدترین عذاب میں مبتلا ہو گیا۔ اس کے عمل سے سزا کی مناسبت اہل علم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ گائے کی آواز والا بچھڑا بنا کر اسے معبود کی صورت میں پیش کرنے سے اس کا مقصد شہرت اور لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنے کی خواہش تھی، اللہ تعالیٰ نے ایسی سزا دی کہ کسی ایک شخص سے بھی نہ مل سکے۔ 2۔ وَ اِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَهٗ : مراد موت، قبر اور آخرت کا عذاب ہے۔ 3۔ وَ انْظُرْ اِلٰى اِلٰهِكَ الَّذِيْ....: ’’ ظَلْتَ ‘‘ ’’ظَلَّ يَظَلُّ‘‘ (ع) سے واحد مذکر حاضر ہے، جو اصل میں ’’ظَلِلْتَ‘‘ تھا (پہلے لام کے کسرہ کے ساتھ)، بولنے میں دشواری ختم کرنے کے لیے پہلا لام حذف کر دیا گیا۔ وزن ’’فَعِلْتَ‘‘ کے بجائے ’’فَلْتَ‘‘ رہ گیا۔ ’’لَنُحَرِّقَنَّهٗ‘‘ جلانے میں شدت کے اظہار کے لیے باب تفعیل استعمال ہوا ہے۔ ’’نَسَفَ يَنْسِفُ نَسْفًا‘‘ (ض) اڑانا، بکھیرنا۔ ’’الْيَمِّ ‘‘ نمکین سمندر اور میٹھے دریا دونوں معنوں میں آتا ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ سونے یا چاندی کے بچھڑے کو آگ میں جلانے سے وہ دھات اڑانے اور بکھیرنے کے قابل تو نہیں ہوتی بلکہ زیادہ خالص اور مضبوط ہو جاتی ہے۔ اس کا جواب بعض مفسرین نے یہ دیا ہے کہ وہ گوشت پوست کا بچھڑا بن گیا تھا، مقصد یہ تھا کہ ہم اسے ذبح کرکے اچھی طرح جلا کر دریا یا سمندر میں اڑا کر بکھیر دیں گے، مگر گوشت پوست کا بچھڑا بننے کی بات بالکل بے اصل ہے۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ہم اسے خوب گرم کریں گے، تاکہ وہ نرم ہو جائے، پھر ریتی کے ساتھ اسے ذرہ ذرہ کر کے دریا میں بکھیر دیں گے، مگر قرآن مجید میں ریتی کا ذکر نہیں۔ اس لیے بعض مفسرین نے فرمایا کہ ’’حَرَقَ يَحْرُقُ‘‘ کا معنی پیسنا بھی آتا ہے اور باب تفعیل میں مزید مبالغہ ہو گیا۔ یہ جواب بھی زبردستی پر مبنی ہے، کیونکہ ’’ تَحْرِيْقٌ ‘‘ کا معنی جلانا ہی آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے مجھے اس کا بالکل واضح جواب مل گیا، وہ یہ کہ حکیم جس دھات کا چاہتے ہیں کشتہ بنا لیتے ہیں، جو راکھ کی صورت میں اتنا باریک ہو جاتا ہے کہ پھونک سے اڑ جاتا ہے۔ اطباء کو انبیاء کے کمال سے تو کوئی نسبت ہی نہیں، لہٰذا ان کے لیے دھات کو راکھ بنانا کیا مشکل ہے؟ 4۔ موسیٰ علیہ السلام کا عمل اس بات کی دلیل ہے کہ غیر اللہ کی عبادت کے لیے جو چیز بھی استعمال ہو رہی ہو اسے مسمار کرنا، جلانا اور اس کا نام و نشان مٹا دینا لازم ہے، خواہ وہ کوئی بت ہو یا درخت یا قبر۔ ابوالہیاج الاسدی (علی رضی اللہ عنہ کے داماد) فرماتے ہیں کہ مجھے علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((أَلَا أَبْعَثُكَ عَلٰی مَا بَعَثَنِيْ عَلَيْهِ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لاَّ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلَّا طَمَسْتَهٗ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّيْتَهٗ)) [مسلم، الجنائز، باب الأمر بتسویۃ القبر : ۹۶۹ ] ’’کیا میں تمھیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا؟ وہ یہ ہے کہ کسی مجسمے کو نہ چھوڑو جسے مٹا نہ دو اور کسی اونچی قبر کو نہ چھوڑو جسے برابر نہ کر دو۔‘‘ اللہ کی شان دیکھیے، اونچی قبریں برابر کرنے پر علی رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا جنھیں تمام قبر پرست اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی دنیوی و اخروی ذلت و رسوائی کا باعث اہلِ کتاب کی پیروی میں قبر پرستی اور شرک کی دوسری صورتوں میں مبتلا ہونا اور توحید سے منہ موڑنا ہے۔ اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ کو اپنی توحید کی طرف پلٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) ’’ لَنُحَرِّقَنَّهٗ‘‘ اور ’’ لَنَنْسِفَنَّهٗ ‘‘ میں لام تاکید اور نون ثقیلہ کے ساتھ اور پھر ’’ نَسْفًا ‘‘ مفعول مطلق کے ساتھ تاکید کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر صورت اسے جلائیں گے اور ہر صورت دریا میں اڑا کر بکھیریں گے۔ کسی طرح ایسا کرنے سے نہیں ٹلیں گے، خواہ کوئی مقابلے پر آ جائے، یا منت و سماجت کرے، یا اپنے اس معبود کے غیظ و غضب سے ڈراتا رہے، یہ کام ہو کر رہے گا۔