أَلَّا تَتَّبِعَنِ ۖ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي
کہ آپ میرے پیچھے نہ آئے، کیا آپ نے میرے حکم کی مخالفت کی۔
1۔ قَالَ يَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ....: ’’ يَبْنَؤُمَّ ‘‘ اصل میں ’’يَا ابْنَ أُمِّيْ‘‘ تھا، یاء کو الف سے بدلنے کے بعد حذف کر دیا۔ ہارون علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کا دل نرم کرنے کے لیے انھیں ماں کا بیٹا کہہ کر مخاطب کیا، کیونکہ ماں کی جانب والی قرابت باپ کی جانب والی قرابت سے زیادہ شفقت، نرمی اور پیار کا تقاضا کرتی ہے۔ (شنقیطی) 2۔ اِنِّيْ خَشِيْتُ....: ہارون علیہ السلام نے سفر جاری نہ رکھنے کا یہ عذر بیان کیا کہ یہ لوگ راستے میں بچھڑا بنا کر وہیں بیٹھ رہنے پر اڑ گئے تھے، اگر میں توحید پر قائم لوگوں کو لے کر آپ کی طرف آتا تو قوم دو حصوں میں بٹ جاتی اور اگر میں انھیں لے کر بچھڑا پوجنے والوں سے لڑتا تو پھر بھی دو دھڑے بن جاتے، جن کی ایک دوسرے کو قتل کرنے کی وجہ سے نہ مٹنے والی شدید دشمنی بن جاتی۔ غالب دھڑا بچھڑے والوں کا تھا اور وہ اس قدر قوت میں تھے کہ انھوں نے مجھے بالکل کمزور سمجھا اور قریب تھے کہ مجھے قتل کر دیتے، اس لیے میں نے آپ کے آنے کا انتظار کیا، تاکہ آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا انتظار نہ کیا، کیونکہ آپ کے احسانات اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معجزات کی وجہ سے آپ کی ہیبت اور آپ کا اکرام ان کے دلوں میں موجود ہے۔ مجھے امید تھی کہ آپ آ کر انھیں سنبھال لیں گے۔ 3۔ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ : بعض صلح کُل سیاسی حضرات، جو ووٹ لینے کی خاطر بدعتی اور مشرک لوگوں کے سامنے شرک کی تردید سے اجتناب کرتے ہیں، بلکہ قبروں پر چادریں بھی چڑھا دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے اگر شرک کو برداشت کرنا پڑے تو وہ بھی کر لینا چاہیے، مگر پھوٹ ڈال کر سیٹ ضائع کرنے سے بچنا چاہیے۔ ان حضرات نے غور نہیں کیا کہ ہارون علیہ السلام نے شرک کے مقابلے میں کسی نرمی یا سمجھوتے سے کام نہیں لیا، بلکہ انھوں نے صاف الفاظ میں شرک کی تردید ، توحید کی تبلیغ اور اپنی اتباع و اطاعت کی تاکید فرمائی۔ دیکھیے آیت (۹۰) اگر وہ شرک کی تردید نہ کرتے تو قوم کو ان کے قتل کے درپے ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ ہاں انھوں نے حالات کو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کی آمد تک علیحدہ ہونے یا لڑنے کے بجائے ان کے فرمان کا انتظار ضروری سمجھا اور اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ 4۔ لَا تَاْخُذْ بِلِحْيَتِيْ : اس سے معلوم ہوا کہ ہارون علیہ السلام کی ڈاڑھی تھی، کیونکہ وہ اگر ڈاڑھی منڈے ہوتے تو انھیں ڈاڑھی پکڑنے کا کیا خوف تھا۔ قرآن مجید کی دوسری آیت ساتھ ملانے سے امت مسلمہ کے ہر فرد پر ڈاڑھی رکھنا فرض ثابت ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاؤدَ وَ سُلَيْمٰنَ وَ اَيُّوْبَ وَ يُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ ﴾ [ الأنعام : ۸۴ ] ’’اور اس (ابراہیم) کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو (ہم نے ہدایت دی)۔‘‘ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے کئی اور پیغمبروں اور ان کے آباء، اولاد اور بھائیوں میں سے ہدایت یافتہ لوگوں کا ذکر کرکے فرمایا: ﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ﴾ [ الأنعام : ۹۰ ] ’’یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہارون علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کی پیروی کا حکم آپ کی امت کے لیے بھی پیروی کا حکم ہے۔ دیکھیے سورۂ صٓ (۲۴) ڈاڑھی بڑھانا فطرت ہے، کسی نبی سے ڈاڑھی منڈوانا یا کتروانا ثابت نہیں۔ یہود ونصاریٰ ڈاڑھی منڈواتے ہیں تو صرف ہمارے رسول ہی کی نہیں اپنے پیغمبر کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((عَشْرٌ مِّنَ الْفِطْرَةِ : قَصُّ الشَّارِبِ وَإِعْفَاٰءُ اللِّحْيَةِ وَالسِّوَاكُ وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ وَ قَصُّ الْأَظْفَارِ وَ غَسْلُ الْبَرَاجِمِ وَ نَتْفُ الإِْبِطِ وَ حَلْقُ الْعَانَةِ وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ، قَالَ زَكَرِيَّاءُ قَالَ مُصْعَبٌ وَ نَسِيْتُ الْعَاشِرَةَ إِلاَّ أَنْ تَكُوْنَ الْمَضْمَضَةَ)) [مسلم، الطھارۃ، باب خصال الفطرۃ : ۲۶۱ ] ’’دس چیزیں فطرت میں سے ہیں : (1) مونچھیں کترنا۔ (2) ڈاڑھی بڑھانا۔ (3) مسواک کرنا۔ (4) ناک میں پانی ڈالنا۔ (5) ناخن کاٹنا۔ (6) پوروں کو دھونا۔ (7) بغلوں کے بال اکھیڑنا۔ (8) زیر ناف صفائی کرنا۔ (9) پانی سے استنجا کرنا۔‘‘ زکریا نے کہا کہ حدیث کے راوی مصعب نے کہا کہ میں دسویں چیز بھول گیا، شاید وہ کلی کرنا ہو۔‘‘ مرد اور عورت کے درمیان فرق کی سب سے بڑی ظاہری نشانی ڈاڑھی ہے۔ کسی مرد کے خصیے نکال دیے جائیں تو اس کی ڈاڑھی بھی معدوم ہو جائے گی۔ یہ خلق اللہ (اللہ کی پیدائش) میں شامل ہے، جس کے متعلق شیطان نے قسم کھا کر کہا تھا کہ میں بنی آدم کو حکم دوں گا تو وہ اللہ کی پیدا کردہ شکل کو بدل ڈالیں گے۔ ڈاڑھی بڑھانے کے حکم کی احادیث معروف ہیں : ’’أَعْفُوا اللُّحٰي، أَرْخُوا اللُّحٰي، وَفِّرُوا اللُّحٰي، أَوْفُوا اللُّحٰي‘‘ اور ’’ لَا تُشَبِّهُوْا بِالْمَجُوْسِ‘‘ اس کے متعلق بہت سی تصانیف موجود ہیں۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھنی ڈاڑھی تھی۔ [ مسند أحمد :1؍ 89، ح : ۶۸۷، عن علی بن أبي طالب و حسنہ شعیب الأرنؤوط ] جو آپ کے بے مثال حسن کا حصہ تھی۔ آپ سے ساری زندگی اس کا ایک بال کاٹنا بھی ثابت نہیں۔ صحابہ کرام اور تابعین، جنھوں نے قیصر و کسریٰ کے خزانے فتح کیے اور زمین کے مشرق و مغرب کو اپنا تابع فرمان بنایا، ان میں کوئی ڈاڑھی منڈا نہ تھا۔ افسوس ہے ان مسلمانوں پر جن کی فطرت اس حد تک مسخ ہو چکی کہ وہ شیطان کے پیچھے لگ کر انبیاء اور صحابہ و تابعین کی وضع اور مردانگی کے اس عظیم شرف سے محروم ہی نہیں ہوئے بلکہ مرد ہوتے ہوئے عورتوں اور مخنثوں والا حلیہ بنا کر اس پر فخر کرنے لگے اور الٹا ڈاڑھی کا مذاق اڑانے لگے، جیسے ناک کٹے لوگ ناک والے کو نکو کہنا شروع کر دیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے پیغمبر کی اطاعت کی طرف پلٹنے اور اپنی گم کردہ عظمت و مردانگی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔