وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِن قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُم بِهِ ۖ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَٰنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي
اور ہارون نے تو انہیں اس کے پہلے خبردار (٣٣) کردیا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو ! تم بچھڑے کے ذریعہ فتنہ میں پڑگئے ہو، اور بیشک تمہارا رب رحم ہے پس تم لوگ میری پیروی کرو اور میرا حکم مانو۔
1۔ وَ لَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ....: موسیٰ علیہ السلام کے آنے سے پہلے ہارون علیہ السلام نے نہایت اچھے طریقے سے نصیحت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہارون علیہ السلام کے خطاب کا ذکر ’’ وَ لَقَدْ ‘‘ (بلاشبہ یقینا) کے ساتھ شروع فرمایا، اس میں بائبل کا رد ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ بچھڑا ہارون علیہ السلام نے بنایا تھا۔ فرمایا، یقینی بات یہ ہے کہ ہارون علیہ السلام نے تو اپنی قوم کو اس کی عبادت سے منع فرمایا تھا۔ ہارون علیہ السلام کے خطاب کا حسن دیکھیے کہ سب سے پہلے یہ کہہ کر انھیں اپنا اور ان کا باہمی تعلق بتایا کہ ’’ يٰقَوْمِ ‘‘ (اے میری قوم!) یعنی اپنے ایک فرد کی بات سنو، جو تمھارا ایک فرد ہے اور تم سب کی اس سے رشتہ داری ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم سے فرمایا: ﴿ لَا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى ﴾ [الشوریٰ : ۲۳ ] ’’میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، مگر رشتہ داری کی وجہ سے دوستی۔‘‘پھر باطل معبود کی نفی کے بعد صرف معبود برحق ’’رحمان‘‘ کو اپنا رب ماننے کی تاکید فرمائی جو ہر حال میں انسان پر رحم فرماتا ہے، جیسا کہ ’’لا الٰہ الا اللہ ‘‘ میں پہلے ہر معبود کی نفی اور آخر میں اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کا اثبات ہے۔ آخر میں اپنی نبوت اور موسیٰ علیہ السلام کی خلافت کی وجہ سے اپنے پیچھے چلنے اور اپنا حکم ماننے کی تلقین فرمائی۔ نصیحت کی یہ بہترین ترتیب ہے۔ 2۔ یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ شیعہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بجائے علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کی دلیل کے طور پر ایک حدیث بڑے زور و شور سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ((أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی إِلاَّ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ)) [مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضی اللّٰہ عنہ :31؍2404، عن سعد بن أبي وقاص رضی اللّٰہ عنہ ] ’’تم مجھ سے اسی مقام پر ہو جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام سے تھا، سوائے اس بات کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ ان حضرات کو دیکھنا چاہیے کہ اپنے مخالفین کے اتنے بڑے مجمع میں، جو ہارون علیہ السلام کے قتل تک پر تیار تھا، ہارون علیہ السلام نے تقیہ اختیار نہیں کیا، بلکہ سب لوگوں کے سامنے واضح الفاظ میں حق بیان فرمایا اور لوگوں کو اپنے اتباع اور اطاعت کی دعوت دی اور دوسروں کی پیروی اور اطاعت سے منع فرمایا، تو اگر امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے میں خطا پر ہوتی تو علی رضی اللہ عنہ پر لازم تھا کہ وہی کرتے جو ہارون علیہ السلام نے کیا تھا اور کسی بھی تقیہ اور خوف کے بغیر اپنی خلافت کا اعلان کرتے اور صاف الفاظ میں کہتے ’’ فَاتَّبِعُوْنِيْ وَ اَطِيْعُوْا اَمْرِيْ ‘‘ تو جب انھوں نے ایسا نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ امت کا فیصلہ درست تھا۔ (رازی)