سورة طه - آیت 88

فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَٰذَا إِلَٰهُكُمْ وَإِلَٰهُ مُوسَىٰ فَنَسِيَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پھر سامری نے ان کے لیے (ان زیورات سے) ایک بچھڑے کا جسم بنا کر نکالا جس سے گائے کی آواز نکلتی تھی، تو سامری کے پیروکاروں نے کہا کہ یہی تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا بھی، لیکن موسیٰ بھول گئے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا....: مصری لوگ ہندوؤں کی طرح گائے کی پرستش کرتے تھے اور اس کی تقدیس کے قائل تھے۔ بنی اسرائیل میں بھی مسلمان ہونے کے باوجود قبطی مشرکوں کی غلامی اور ان سے میل جول کی وجہ سے یہ عقیدہ سرایت کر گیا تھا، جس کا وقتاً فوقتاً اظہار ہوتا رہتا تھا، جیسا کہ اس وقت ہوا جب موسیٰ علیہ السلام نے انھیں کوئی گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۶۷) اب موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں سامری نے بنی اسرائیل کے زیوروں سے گائے کا بچھڑا بنایا جو بے جان تھا، مگر ایسی کاری گری سے بنایا گیا تھا کہ اس میں رکھے گئے سوراخوں کی وجہ سے خود بخود گائے کی سی آواز نکلتی تھی۔ وہ لوگ جنھوں نے سمندر سے پار ہوتے ہی چند بت پرستوں کے پاس سے گزرتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام سے ان کے معبودوں جیسا معبود بنانے کا مطالبہ داغ دیا تھا، انھی جاہلوں نے فوراً اسے اپنا معبود تسلیم کر لیا اور کہنے لگے، تمھارا اور موسیٰ کا اصل معبود تو یہ ہے، موسیٰ بھول میں پڑ گئے جو طور پر کسی معبود سے کلام کے لیے گئے ہیں۔ ہمارے بعض صوفی حضرات بھی تصور شیخ کے شرک میں اس حد تک بڑھ گئے کہ جو محبت اپنے رب سے کرنی تھی اور جس طرح ہر وقت اسی کو اپنے سامنے رکھنا تھا، وہ محبت اور یاد شیخ کی نذر کر دی اور یہاں تک کہہ دیا : اے قوم بحج رفتہ کجائید کجائید معشوق درینجا ست کجائید کجائید ’’اے حج کو گئے ہوئے لوگو! تم کہاں ہو، تم کہاں ہو؟ معشوق تو یہاں ہے، تم کہاں ہو، تم کہاں ہو؟‘‘ جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ....: بعض مفسرین نے یہ تک لکھ دیا ہے کہ وہ گوشت پوست کا بچھڑا بن گیا، مگر اس کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ وہ محض دھات کا بنا ہوا ایک بے جان مجسمہ تھا۔ ’’ خُوَارٌ ‘‘ گائے کی آواز۔