سورة طه - آیت 86

فَرَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تو موسیٰ اپنی قوم کے پاس غصہ کی حالت میں افسوس کرتے ہوئے لوٹے، کہا اے میری قوم کے لوگو ! کیا اللہ نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا، کیا عہد و میثاق کی مدت لمبی ہوگئی تھی، یا تم نے خود ہی چاہا کہ تمہارے رب کا غضب تم پر نازل ہوئی ہوجائے، اس لیے تم لوگوں نے مجھ سے کئے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی کی۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَرَجَعَ مُوْسٰى اِلٰى قَوْمِهٖ....: ’’ غَضْبَانَ ‘‘ مبالغے کے وزن پر ہے، اس لیے ’’غصے سے بھرا ہوا‘‘ ترجمہ کیا ہے۔ ’’اَسِفًا ‘‘ ’’أَسِفَ يَأْسَفُ‘‘ (ع) سے صفت کا صیغہ ہے، اس کا معنی سخت غم و افسوس کرنے والا بھی ہے اور غصے والا بھی۔ (قاموس) یہاں ’’غَضْبَانَ ‘‘کے بعد افسوس زیادہ مناسب ہے۔ حرفِ ’’فاء‘‘ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے مکالمہ اور کتاب دینے کے آخر میں انھیں قوم کے گمراہ ہونے کی اطلاع دی۔ ’’ فَرَجَعَ مُوْسٰى اِلٰى قَوْمِهٖ ‘‘ تو یہ خبر سنتے ہی موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کی طرف واپس روانہ ہو گئے۔ قَالَ يٰقَوْمِ اَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا : اس وعدے سے مراد توبہ، ایمان اور عمل صالح کے بعد اس پر استقامت اختیار کرنے والے کے لیے مغفرت کا وعدہ، طور کی جانبِ ایمن پر موسیٰ علیہ السلام سے کلام اور بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے تورات عطا کرنے کا وعدہ اور من و سلویٰ نازل کرنے کا وعدہ ہے۔ (طبری) اَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ....: ’’الْعَهْدُ ‘‘ کا معنی ہے وصیت، کسی آدمی سے کوئی بات طے کر لینا، پختہ وعدہ، قسم، حرمت کا خیال رکھنا، امان، ذمہ، ملاقات، پہچان، زمانہ، وفا، اللہ تعالیٰ کی توحید وغیرہ۔ (قاموس) یہاں ملاقات بھی معنی ہو سکتا ہے اور مدت بھی کہ کیا تمھیں میری ملاقات کو بہت لمبی مدت ہو چکی تھی کہ تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کی خلاف ورزی کی؟ تیس دنوں سے دس دن ہی تو زیادہ گزرے تھے، یہ کون سی لمبی مدت تھی کہ تم نے مجھ سے کیے ہوئے سب وعدے توڑ ڈالے۔ وعدہ خلافی سے مراد ان کا طور کے دامن تک جانے کے لیے موسیٰ علیہ السلام کے پیچھے چلتے رہنے کے بجائے راستے میں ٹھہر جانا، بچھڑے کی پرستش اور مجاوری پر اڑ جانا اور ہارون علیہ السلام کے انھیں چلتے رہنے کی تاکید اور بچھڑے کی عبادت ترک کرنے کی نصیحت پر یہ کہنا کہ ’’ لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عٰكِفِيْنَ ‘‘ یعنی ہم اسی پر مجاور بن کر بیٹھے رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ ہمارے پاس آئیں۔ یہ تمام باتیں وعدے کی خلاف ورزی تھیں۔ (طبری)