يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ
اے بنی اسرائیل ! ہم نے تمہیں تمہارے دشمن (فرعون) سے نجات (٣٠) دی اور تم سے کوہ طور کے داہنے جانب آنے کا وعدہ لیا، اور تمہارے لیے من و سلوی نازل کیا۔
1۔ يٰبَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ قَدْ اَنْجَيْنٰكُمْ....: یہ تین آیتیں موسیٰ علیہ السلام کے قصے کے درمیان جملہ معترضہ کے طور پر آئی ہیں، جیسا کہ اس سے پہلے دو آیات (۵۵، ۵۶) گزر چکی ہیں۔ اس آیت میں موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے بنی اسرائیل مخاطب ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے یہود کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد کروائی جا رہی ہوں، جیسا کہ ﴿ يٰبَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِيَ الَّتِيْ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ ﴾ [ البقرۃ : ۴۰، ۴۷، ۱۲۲ ] میں ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تین نعمتیں یاد دلائیں۔ سب سے پہلے غلامی سے نجات کی عظیم نعمت، اس کے بعد طور پر بلا کر دینی احکام پر مشتمل کتاب عطا کرنے کی نعمت اور آخر میں بلامشقت من و سلویٰ کا پاکیزہ اور لذیذ ترین رزق عطا کرنے کی نعمت۔ من و سلویٰ کی تفسیر کے لیے دیکھیں سورۂ بقرہ (۵۷)۔ 2۔ وَ وٰعَدْنٰكُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَيْمَنَ....: اس واقعہ کا ذکر سورۂ بقرہ (۵۲) میں بھی ہے اور اس کی تفصیل سورۂ اعراف (۱۴۲ تا ۱۴۷) میں ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہاڑ کی دائیں جانب سے مراد کیا ہے؟ کیونکہ پہاڑ کی ہر جانب ہی کھڑے ہونے والے شخص کے لحاظ سے دائیں بھی ہو سکتی ہے اور بائیں بھی۔ جواب اس کا یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت اور اسلام میں جغرافیہ اور محل وقوع میں جہتوں کے تعین کے لیے مشرق کو اصل قرار دیا گیا ہے، چنانچہ یمن اور شام کے نام اسی مناسبت سے رکھے گئے ہیں کہ کعبہ سے مشرق کی طرف رخ کریں تو دائیں طرف یمن ہے، جس کا معنی دایاں ہے اور بائیں طرف شام۔ امرؤ القیس نے بھی ایک بادل کے برسنے کا محل وقوع بیان کرتے ہوئے کہا ہے: عَلٰي قَطَنٍ بِالشَّيْمِ أَيْمَنُ صَوْبِهِ وَ أَيْسَرُهُ عَلَي السِّتَارِ فَيَذْبُلِ ’’غور سے دیکھنے پر اس کی بارش کا دایاں حصہ قطن مقام پر تھا اور اس کا بایاں حصہ ستار پھر یذبل نامی مقام پر تھا۔‘‘ اس صورت میں اگر ’’الْاَيْمَنَ‘‘سے مراد دائیں جانب لیں تو موسیٰ علیہ السلام کے طور کی مغربی جانب اس کی طرف رخ کرکے کھڑے ہونے پر پہاڑ کی دائیں طرف (جنوب) مراد ہو گی، جیسا کہ مدین سے مصر کو آتے ہوئے پہلی وحی کے وقت وہ پہاڑ کی مغربی جانب میں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ اِذْ قَضَيْنَا اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ ﴾ [ القصص : ۴۴ ] ’’اور اس وقت تو مغربی جانب میں نہیں تھا جب ہم نے موسیٰ کی طرف حکم کی وحی کی۔‘‘ اور اگر ’’الْاَيْمَنَ ‘‘ کو ’’يَمِيْنٌ‘‘ (دائیں) کے بجائے ’’يُمْنٌ‘‘ (برکت) سے اسم تفضیل مانیں تو دائیں بائیں کی تعیین کی ضرورت ہی نہیں بلکہ طور کی جانب ایمن (بابرکت جانب) اور اس سورت کی آیت (۱۲): ﴿ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴾میں مذکور وادی مقدس دونوں سے مراد وادی طویٰ ہو گی۔ (ابن عاشور)