وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَىٰ
اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کردیا اور انہیں سیدھی راہ پر نہ ڈالا۔
وَ اَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهٗ وَ مَا هَدٰى : یہاں ایک سوال ہے کہ ’’ اَضَلَّ ‘‘ (گمراہ کیا) اور ’’ مَا هَدٰى ‘‘ (سیدھے راستے پر نہ ڈالا) دونوں کا مطلب ایک ہی ہے تو تکرار کا کیا فائدہ؟ اس سوال کے کئی جواب ہیں، ایک تویہ کہ یہ تاکید کے لیے ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَآءٍ ﴾ [ النحل : ۲۱ ] ’’مردے ہیں، زندہ نہیں ہیں۔‘‘ دوسرا یہ کہ ’’فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا‘‘ میں امکان تھا کہ اگر بعض چیزوں میں اس نے اپنی قوم کو غلط راستے پر ڈالا تو بعض میں درست سمت پر بھی چلایا ہو، چلو دنیا ہی کا کچھ فائدہ پہنچایا ہو۔ فرمایا، نہیں! کسی چیز میں بھی درست راستے پر نہیں ڈالا، بلکہ انھیں اتنا بے وقوف اور بے وقعت بنا دیا کہ وہ اس کی سراسر حماقتوں میں بھی اس کے پیچھے ہی چلتے رہے۔ (زخرف : ۴۵) (بقاعی) جیسا کہ آج کل دہریہ ملک چین میں حکومت کے حکم پر ایک یا دو بچوں سے زیادہ بچے پیدا ہونے پر عموماً انھیں ہسپتال ہی میں زہر کا ٹیکہ لگا کر مار دیا جاتا ہے اور اگر کوئی اپنا بچہ مرنے سے بچا لے تو اس کا پیدائش کے رجسٹر میں اندراج ہو سکتا ہے نہ اسے رجسٹرڈ شہری کی مراعات حاصل ہو سکتی ہیں۔ کوئی اولاد والا ہی اس دردناک کیفیت کا ادراک کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود پوری قوم خوشی یا بے بسی سے ان احکام کے پیچھے چل رہی ہے، اس سے بڑھ کر ’’مَا هَدٰى ‘‘ کیا ہو گا؟ تیسرا جواب یہ کہ دراصل یہ فرعون کے اس دعویٰ پر طنز ہے جو اس نے کیا تھا: ﴿ مَا اُرِيْكُمْ اِلَّا مَا اَرٰى وَ مَا اَهْدِيْكُمْ اِلَّا سَبِيْلَ الرَّشَادِ ﴾ [ المؤمن : ۲۹ ] ’’میں تو تمھیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود رائے رکھتا ہوں اور میں تمھیں بھلائی کا راستہ ہی بتا رہا ہوں۔‘‘ اور زیرِ تفسیر سورت کی آیت (۶۳) میں بھی اس کے چیلوں نے اپنے طریقے کو سب سے افضل قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے رد میں فرمایا کہ ’’فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور انھیں سیدھے راستے پر نہ ڈالا۔‘‘ (زمخشری)