سورة طه - آیت 71

قَالَ آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۖ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

فرعون نے کہا، قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں، تم لوگ موسیٰ پر ایمان لے آئے، بیشک یہی تمہارا وہ بڑا جادوگر ہے جس نے تم لوگوں کو جادو سکھایا ہے، تو میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ ڈالتا ہوں، اور کھجور کے تنوں پر تمہیں سولی دے دیتا ہوں اور تب تم ضرور جان لو گے کہ موسیٰ اور مجھ میں کس کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیر رہنے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّهٗ لَكَبِيْرُكُمُ الَّذِيْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ: یعنی یہ تمھارا ’’گرو‘‘ ہے اور تم اس کے چیلے ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم آپس میں طے کرکے آئے ہو کہ پہلے چیلے ایک شعبدہ دکھائیں گے، پھر وہ سب کے سامنے ’’گرو‘‘ سے شکست کھا لیں گے، تاکہ دیکھنے والے ان کے ’’گرو‘‘ کا کہنا مان لیں اور اس کے معتقد بن جائیں۔ فرعون نے یہ شبہ اسی وقت پیدا کر دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام بھی ان کے متبع ہو جائیں۔ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ....: شبہ پیدا کرنے کے بعد اوپر سے دھمکی بھی دے دی، تاکہ ان کو ایمان پر قائم رہنے سے پھیر دیا جائے اور دوسرے لوگ بھی مرعوب ہو جائیں۔ فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ : ’’جُذُوْعِ ‘‘ ’’جِذْعٌ‘‘ (جیم کے کسرہ کے ساتھ) کی جمع ہے ’’تنے۔‘‘ سولی دینے کے لیے اونچے سے اونچا میسر کھمبا اس وقت کھجور کا تنا تھا۔ ظاہر ہے کہ سولی تنے کے اوپر دی جاتی ہے، مگر یہاں ’’فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ ‘‘ (کھجوروں کے تنوں میں) فرمایا۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں لفظ ’’ فِيْ ‘‘ ’’عَلٰي‘‘ کے معنی میں ہے، مگر ’’فِيْ ‘‘ کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ تمھیں کھجوروں کے تنوں کے اوپر لے جا کر کیلوں یا رسیوں کے ساتھ تنوں میں پیوست کر دوں گا اور اس طرح تم عبرت ناک انجام کو پہنچو گے۔ سولی کی تفصیل سورۂ اعراف (۱۱۵ تا ۱۲۶) میں دیکھیں۔ وَ لَتَعْلَمُنَّ اَيُّنَا اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبْقٰى: یعنی وہ عذاب جس سے موسیٰ( علیہ السلام ) نے تمھیں مقابلے سے پہلے ڈرایا تھا کہ ’’وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ ‘‘ وہ زیادہ سخت اور دیرپا ہے یا میرا عذاب؟ فرعون حقیقت ِحال سے واقف تھا، مگر اپنی شکست فاش پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ دھمکیاں دے رہا تھا۔