قَالُوا إِنْ هَٰذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَن يُخْرِجَاكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَىٰ
انہوں نے کہا، بیشک یہ دونوں جادوگر ہیں، چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سرزمین سے بے دخل کردیں اور تمہارے بہترین مذہب کو ختم کردیں۔
1۔ قَالُوْا اِنْ هٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ....: یہ ’’ اِنْ ‘‘ اصل میں ’’إِنَّ‘‘ حرف تاکید ہے، جس کی علامت خبر ’’ لَسٰحِرٰنِ ‘‘ پر لام تاکید ہے۔ یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ ’’ إِنَّ ‘‘ اپنے اسم کو نصب دیتا ہے، اس لیے ’’هٰذٰىنِ ‘‘ کے بجائے ’’هٰذَيْنِ‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ ’’ إِنَّ‘‘ کے نون کو جزم دینے کے بعد اس کا عمل ختم کر دیا گیا اور ’’هٰذٰىنِ ‘‘ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے، دوسرا یہ کہ ’’ اِنْ ‘‘ (نون ساکن کے ساتھ) ’’ إِنَّهُ ‘‘ یعنی ’’ إِنَّ ‘‘ اور ضمیر شان کی جگہ آیا ہے، چنانچہ ’’اِنْ ‘‘ کا اسم ضمیرِ شان تھی اور ’’ هٰذٰىنِ ‘‘ اگلے جملے کا مبتدا ہے اور وہ جملہ ’’ اِنْ ‘‘ کی خبر بن رہا ہے۔ (ابن جزی) مزید جواب لمبی تفسیروں میں دیکھیں۔ ’’ الْمُثْلٰى ‘‘ ’’أَمْثَلُ‘‘ اسم تفضیل کا مؤنث ہے، بمعنی ’’أَفْضَلُ‘‘ سب سے اچھا۔ 2۔ آخر باہمی مشورے کے بعد مال و دولت اور جاہ ومنصب کی حرص نے ان سب کو مقابلے پر متفق کر دیا اور فیصلہ یہ ٹھہرا کہ یہ دونوں یقیناً جادوگر ہیں اور چاہتے ہیں کہ اقتدار حاصل کرکے تمھیں تمھارے وطن سے نکال دیں اور تمھارے دین و مذہب کو، جو سب سے اچھا ہے اور تمھاری عیش و عشرت والی بہترین زندگی کو حکومت پر قبضہ کرکے ختم کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلاَ فِيْ غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ )) ’’دو بھوکے بھیڑیے، جو بھیڑ بکریوں میں چھوڑ دیے جائیں، وہ انھیں اس قدر برباد کرنے والے نہیں جس قدر آدمی کی مال اور بلند مرتبہ (شہرت) کی حرص اس کے دین کو برباد کرنے والی ہے۔‘‘ [ ترمذی، الزھد، باب حدیث ما ذئبان جائعان....: ۲۳۷۶۔ ابن حبان : ۳۲۲۸، عن کعب بن مالک رضی اللّٰہ عنہ ، صحیح ]