فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ
پس اس سے نرم گفتگو کیجیے شاید کہ وہ نصیحت قبول کرلے یا اس کے دل میں اللہ کا خوف ااجائے۔
1۔ فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا : اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کو حکم دیا کہ فرعون کو دعوت دیتے وقت نرم بات کہیں، جس میں ترغیب ہو، اسے غصہ دلانے والی نہ ہو۔ ہر داعی کو یہی اسلوب اختیار کرنا لازم ہے، کیونکہ دعوت الی اللہ سے مقصود مخاطب کی ہدایت اور اصلاح ہوتی ہے نہ کہ اپنی برتری ثابت کرنا، یا سخت کلامی سے دل کا غصہ نکالنا۔ دیکھیے سورۂ نحل (۱۲۵) اور آل عمران (۱۵۹) اللہ تعالیٰ نے وہ نرم بات بھی خود ہی سکھا دی، جیسا کہ آگے آیت (۴۷) میں آ رہا ہے اور دیکھیے سورۂ نازعات (۱۸، ۱۹) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَا عَائِشَةُ ! إِنَّ اللّٰهَ رَفِيْقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ وَيُعْطِيْ عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِيْ عَلَی الْعُنْفِ وَمَا لاَ يُعْطِيْ عَلٰی مَا سِوَاهٗ )) [مسلم، البر والصلۃ، باب فضل الرفق : ۲۵۹۳، عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا ] ’’اے عائشہ! بے شک اللہ تعالیٰ بہت نرمی والا ہے، نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو نہ سختی پر عطا کرتا ہے اور نہ اس (نرمی) کے سوا کسی اور چیز پر عطا کرتا ہے۔‘‘ اور یہ بھی فرمایا : (( إِنَّ الرِّفْقَ لَايَكُوْنُ فِيْ شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ وَلاَ يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهٗ )) [مسلم، أیضًا : ۲۵۹۴ ] ’’نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے زینت بخشتی ہے اور جس سے بھی نکال لی جائے اسے عیب دار بنا دیتی ہے۔‘‘ ہاں اگر کہیں نرمی بالکل ہی بے اثر ٹھہرے اور کوئی شخص ہٹ دھرمی اور تکبر سے کسی طرح باز نہ آئے تو اس سے حق بات سختی کے ساتھ کہنے کی بھی اجازت ہے، کیونکہ وہاں ’’حکمت ‘‘کا تقاضا یہی ہے، جیسا کہ سورۂ عنکبوت (۴۶) میں ہے اور زیر تفسیر آیات میں آیت (۴۸) میں موسیٰ علیہ السلام کا قول ہے۔ 2۔ لَعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى: ’’ لَعَلَّ ‘‘ کا لفظ ترجی (امید کرنے) کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں امید کا ذکر آئے تو وہ بات یقینی ہوتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ فرعون نصیحت یا ڈرنے سے محروم رہے گا، پھر ’’لَعَلَّ‘‘ کا لفظ کیوں فرمایا؟ اس کی دو توجیہیں ہیں اور دونوں درست ہیں۔ ایک تویہ کہ یہ ’’لَعَلَّ‘‘ موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کی نسبت سے ہے کہ تم اس سے نرم بات اس امید کے ساتھ کہو کہ وہ نصیحت حاصل کرے گا یا ڈر جائے گا۔ ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کو تو علم نہیں تھا کہ وہ ایمان نہیں لائے گا۔ اسی طرح مخاطب کتنا بھی سرکش ہو داعی کو ہمیشہ امید کا چراغ دل میں روشن رکھنا لازم ہے۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ ’’لَعَلَّ‘‘ کا لفظ ’’امید ہے‘‘ کے علاوہ ’’كَيْ‘‘ یعنی ’’تاکہ‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے، جیسے سورۂ بقرہ (۲۱) میں فرمایا : ﴿ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ﴾ ’’تاکہ تم بچ جاؤ۔‘‘ ’’ يَتَذَكَّرُ ‘‘ نصیحت حاصل کرکے ایمان لے آئے یا کم از کم ڈر کر ظلم سے باز آ جائے، کیونکہ ایک سرکش آدمی سے یہی امید کی جا سکتی ہے۔