أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ ۚ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِي
کہ تم بچہ کو صندوق میں بند کردو پھر اس صندوق کو دریا میں ڈال دو تاکہ دریا کا بہاؤ اسے ساحل پر پہنچا دے، وہاں اسے وہ آدمی لے لے گا جو میرا دشمن ہے اور اس کا بھی دشمن ہے اور میں نے اپنی جانب سے آپ کے چہرے میں (لوگوں کے لیے) محبت پیدا کردی اور میں نے چاہا کہ میری خاص نگرانی میں آپ کی پرورش ہو۔
1۔ اَنِ اقْذِفِيْهِ فِي التَّابُوْتِ....: یعنی تمھارا کام بس اتنا ہے کہ صندوق میں ڈال کر دریا (نیل) میں ڈال دو۔ آگے دریا کو ہمارا حکم یہ ہے کہ اسے راستے میں روکنے یا لے جا کر سمندر میں ڈالنے کے بجائے عین فرعون کے محل کے پاس ساحل پر لگا دے۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل سورۂ قصص (۷ تا ۱۳) میں ہے۔ 2۔ وَ اَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ....: یعنی تمھاری صورت ایسی بنائی اور اس میں اپنی طرف سے ایسی انوکھی دل ربائی رکھی کہ جو کوئی تمھیں دیکھتا بے اختیار محبت کرنے لگتا۔ ’’ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰى عَيْنِيْ ‘‘ کا عطف ’’ وَ اَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ‘‘ سے حاصل ہونے والے مفہوم پر ہے، جس کی تقدیر یوں ہو گی : ’’وَ أَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ لِتُحَبَّ وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِيْ ‘‘ ’’اور میں نے تجھ پر ایک انوکھی محبت ڈال دی، تاکہ تجھ سے محبت کی جائے اور تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے۔‘‘ اس عطف کی مزید توجیہات مفصل کتب میں دیکھیں۔ ’’ مَحَبَّةً ‘‘ میں تنوین تنکیر کے لیے ہے، اس لیے ’’ایک انوکھی محبت‘‘ ترجمہ کیا ہے، یعنی جو اسباب کی وجہ سے نہیں تھی، بلکہ بلااسباب خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی۔