فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
اس کے بعد شوہر اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دے (324) تو پھر وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرلے، پھر اگر دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے، تو دونوں کے لیے کوئی حرج کی بات نہیں کہ آپس میں مل جائیں، اگر نہیں یقین ہو کہ اللہ کے حدود کو قائم رکھیں گے، اور یہ اللہ کے حدود ہیں، جنہیں وہ جاننے والی قوم کے لیے بیان کر رہا ہے
1۔ یعنی تیسری طلاق کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کر لے اور وہ خاوند اس سے جماع نہ کر لے اور پھر وہ اسے از خود طلاق نہ دے، یا فوت نہ ہو جائے تو پہلے خاوند کے لیے اس سے نکاح حلال نہیں۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ دوسرے خاوند سے اس غرض سے نکاح کرے کہ پہلے خاوند کے لیے حلال ہو جائے، کیونکہ ایسا نکاح کرنے اور کروانے والے پر تو احادیث میں لعنت آئی ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کروانے والے پرلعنت فرمائی۔‘‘ [ نسائی، الطلاق، باب إحلال المطلقۃ:۳۴۴۵، و حسنہ الألبانی۔ ترمذی:۱۱۱۹، مختصراً ] بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حلالہ کرنے والے کو ”اَلتَّيْسُ الْمُسْتَعَارُ“ (ادھار لیا ہوا سانڈ) کہا ہے۔ [ ابن ماجہ، النکاح، باب المحلل والمحلل لہ:۱۹۳۶، عن عقبۃ بن عامر و حسنہ الألبانی ] 2۔ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینا منع ہے، لیکن اگر کوئی دے دے تو ایک ہی طلاق واقع ہو گی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں، پھر لوگوں نے اس کام میں جلدی شروع کر دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’لوگوں نے ایسے کام میں جلدی کرنا شروع کر دی ہے جس میں ان کے لیے مہلت تھی، تو اگر ہم ان پر وہ (تینوں طلاقیں ہی) نافذ کر دیں۔‘‘ چنانچہ انھوں نے اسے نافذ کر دیا۔ [ مسلم، الطلاق، باب الطلاق الثلاث:۱۴۷۲ ] نیز دیکھیے فتاویٰ ابن تیمیہ ( ۳۳ ؍۱۳، ۲۵، ۸۵ تا ۸۷)۔