تَنزِيلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى
اور یہ اس (اللہ) کا نازل کردہ ہے جس نے زمین اور اونچے آسمانوں کو پیدا کیا۔
’’ تَنْزِيْلًا ‘‘ فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے جو ’’ مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ ‘‘ سے معلوم ہو رہا ہے، یعنی ’’نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْآنُ تَنْزِيْلاً۔‘‘ تنزیل کا معنی تھوڑا تھوڑا کرکے اتارنا ہے، اس کی حکمت کے لیے دیکھیے سورۂ فرقان کی آیت (۳۲) ’’ الْعُلٰى ‘‘ ’’عُلْيَا‘‘ کی جمع ہے جو ’’أَعْلٰي‘‘ کی مؤنث ہے، جیسے ’’كُبْرٰي‘‘ کی جمع ’’كُبَرٌ‘‘ ہے، یعنی یہ قرآن کسی جادوگر، کاہن، شاعر، شیطان، جن، انسان، فرشتے یا کسی بھی مخلوق کا کلام نہیں، بلکہ اس خالق کا نازل کردہ ہے جو صرف تمھارا ہی خالق نہیں بلکہ اس عظیم الشان زمین کا، جس کے اوپر اور ان بے حد بلند و بالا آسمانوں کا، جن کے نیچے تم رہتے ہو، سب کا خالق وہی ہے۔ دیکھیے سورۂ نازعات (۲۷ تا ۳۳) اس سے اس قرآن کی عظمت سمجھ لو کہ کیا یہ اپنے لانے والے یا اپنے ماننے والوں کے لیے کسی طرح بھی باعث شقاوت ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں! بلکہ یہ ان کے لیے سراسر سعادت ہی سعادت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِنَّ الدِّيْنَ يُسْرٌ وَلَنْ يُّشَادَّ الدِّيْنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهٗ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَأَبْشِرُوْا وَاسْتَعِيْنُوْا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ وَشَيْءٍ مِنَ الدُّلْجَةِ ))’’بے شک یہ دین آسان ہے اور کوئی بھی شخص دین میں جب بھی بے جا سختی کرے گا تو وہ اس پر غالب آ جائے گا۔ تو تم سیدھے چلو اور قریب رہو اور (اللہ سے ملنے والے اجر پر) خوش ہو جاؤ اور صبح و شام اور رات کے کچھ حصے (میں عبادت) کے ساتھ مددحاصل کرو۔‘‘ [ بخاري، الإیمان، باب الدین یسر : ۳۹، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ]