لَّا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَٰنِ عَهْدًا
لوگوں کو (کسی کے لیے) سفارش (٥٢) کرنے کا اختیار نہیں ہوگا مگر جس کو رحمن سے اجازت ملے گی ( یا لوگ کسی کی سفارش کے حقدار ہیں ہوں گے مگر وہ جس نے (دنیا میں) رحمن کے لیے کلمہ توحید کا اقرار کیا ہوگا)
لَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ....: یعنی شفاعت کا حق دار وہ ہو گا جسے رحمان کے ہاں عہد نجات حاصل ہو۔ اس عہد سے مراد کلمۂ شہادت کا اقرار ہے۔ یہ تفسیر ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنھم سے ثابت ہے۔ (ابن کثیر مع حاشیہ حکمت بن بشیر) ایک حدیث میں پنجگانہ نماز کی پابندی کو بھی عہد قرار دیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْعَهْدُ الَّذِيْ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ )) [مسند أحمد:5؍346، ح : ۲۳۰۰۱۔ ترمذي : ۲۶۲۱۔ ابن ماجہ : ۱۰۷۹، عن بریدۃ رضی اللّٰہ عنہ و صححہ الألباني ] ’’وہ عہد جو ہمارے اور ان (مشرکین) کے درمیان ہے نماز ہے، جس نے اسے ترک کر دیا تو وہ بلاشبہ کافر ہو گیا۔‘‘ معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب ایمان والوں کی تو شفاعت ہو گی مگر کافر کی کوئی شفاعت نہیں کر سکے گا۔ پس ’’ لَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ شفاعت کے مستحق صرف وہی لوگ ہوں گے جنھوں نے رحمان کے ہاں عہد حاصل کر رکھا ہے، کفار نہیں۔ اس معنی کی شاہد کئی آیات ہیں۔ دیکھیے سورۂ مدثر (۴۸)، شعراء (۱۰۰، ۱۰۱)، مومن (۱۸)، انبیاء (۲۸) اور دوسری آیات۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب مجرمین کے حق میں کوئی شفاعت نہیں کر سکے گا تو وہ خود دوسروں کے حق میں شفاعت کا اختیار بالاولیٰ نہیں رکھیں گے۔ دوسرا مطلب آیت کا یہ ہے کہ شفاعت کا اختیار صرف اسی کو ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ شفاعت کی اجازت دے گا، کوئی نبی یا فرشتہ اپنی مرضی سے کسی کی شفاعت نہیں کر سکے گا، فرمایا : ﴿مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ﴾ [البقرۃ : ۲۵۵ ] ’’کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔‘‘ اس آیت میں تمام مشرکین کو خبردار کر دیا گیا ہے کہ مشرک بت پرست ہوں یا قبر پرست، زندہ پرست ہوں یا مردہ پرست، ہر قسم کی شفاعت سے محروم رہیں گے۔ گویا یہ ’’لِيَكُوَنُوْا لَهُمْ عِزًّا ‘‘ کا جواب ہے۔ (کبیر، شوکانی، شنقیطی)