سورة مريم - آیت 85

يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَٰنِ وَفْدًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جس دن ہم متقیوں (٥١) کو رحمن کے پاس بحیثیت مہمان جمع کریں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِيْنَ....: ’’وَفْدًا ‘‘ ’’وَافِدٌ‘‘ کی جمع ہے۔ ’’وَفَدَ يَفِدُ وَفْدًا وَ وُفُوْدًا‘‘ بروزن ’’وَعَدَ يَعِدُ ‘‘ کسی کے پاس جانا۔ وفد چند آدمیوں کی جماعت کو کہتے ہیں جو کسی اہم کام کے لیے یا کوئی عطیہ حاصل کرنے کے لیے کسی بادشاہ یا بڑی شخصیت کے پاس جائے۔ ’’ نَسُوْقُ ‘‘ ’’سَاقَ يَسُوْقُ سَوْقًا‘‘ بروزن ’’قَالَ يَقُوْلُ‘‘ جانوروں کو ہانکنا۔ بعض اوقات کسی کو بھی چلانے کے معنی میں آ جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ سِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ﴾ [الزمر : ۷۳ ] ’’اور وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈر گئے، گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے۔‘‘ ’’ الْمُجْرِمِيْنَ ‘‘ جرم وہ گناہ جسے کرنے والا سزا کا حق دار ہو۔ ’’وِرْدًا ‘‘ ’’وَارِدٌ‘‘ کی جمع ہے۔ ’’وَرَدَ يَرِدُ وُرُوْدًا‘‘ پانی پینے کے لیے جانا، چونکہ اس مقصد کے لیے پیاسا ہی جاتا ہے، اس لیے ’’وِرْدًا‘‘ کا معنی ’’پیاسے‘‘ ہے۔ ان آیات میں متقین اور مجرمین کا انجام بیان ہوا ہے۔ پہلی آیت میں رحمان کی طرف جانے کا ذکر فرمایا، جنت وغیرہ کا ذکر نہیں فرمایا، یعنی متقی لوگ رحمان کے معزز مہمان بن کر جائیں گے۔ دنیا میں شاہی مہمانوں کے قدم زمین پر نہیں ٹکتے، اس دن بے حد و بے انتہا رحم والے، شاہوں کے شاہ کے معزز مہمانوں کے اعزاز و اکرام کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟ دوسری آیت میں جہنم کا ذکر ہے، رحمان کا ذکر نہیں۔ کیونکہ آخر دم تک جرم سے باز نہ آنے والے مجرم اس رحمان کے کسی رحم کے مستحق نہیں جو زمین و آسمان سے بھی زیادہ گناہوں کو سچے دل سے معافی کی ایک درخواست پر معاف کر دیتا ہے۔ سورۂ زمر (۷۱ تا ۷۳) میں متقین اور کفار کے اس مرحلے کا تفصیل سے ذکر آیا ہے۔