سورة مريم - آیت 68

فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّيَاطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس آپ کے رب کی قسم ! ہم انہیں اور شیاطین کو ضرور اکٹھا کریں گے، پھر انہیں جہنم کے گرد حاضر کریں گے اس حال میں کہ وہ گھٹنوں کے بل گرے ہوں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ....: ’’ جِثِيًّا ‘‘ ’’جَثَا يَجْثُوْ جُثُوًّا‘‘ اور ’’جَثَي يَجْثِيْ جُثِيًا‘‘ (ن، ض) سے اسم فاعل ’’جَاثٍ‘‘ (اَلْجَاثِيْ ) کی جمع ہے، گھٹنوں کے بل گرنے والے۔ قیامت کے منکروں کو اس کا یقین دلانے کے لیے قسم اٹھا کر فرمایا کہ تیرے رب کی قسم ہے کہ ہم انھیں اور ان کو گمراہ کرنے والے شیطانوں کو ضرور اکٹھا کریں گے۔ شیطانوں میں قرین بھی شامل ہیں (دیکھیے سورۂ ق : ۲۳) اور ابلیس کی اولاد اور انسانوںمیں سے گمراہ کرنے والے شیطان بھی۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۱۲) جہنم کے گرد ان کی حاضری کی تصویر دکھانے کے لیے فرمایا کہ وہ جہنم کے گرد نہایت ذلیل و خوار اور خوف زدہ ہو کر گھٹنوں کے بل گرے ہوں گے اور ان میں کھڑا ہونے کی طاقت نہیں ہوگی۔ دیکھیے سورۂ جاثیہ (۲۸)۔ 2۔ ’’تیرے رب کی قسم‘‘ اس میں دو فائدے حاصل ہو رہے ہیں، ایک تو قسم کی وجہ سے بات کی تاکید، دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی رفعت، جیسا کہ سورۂ ذاریات کی آیت (۲۳) : ﴿ فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِنَّهٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَا اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ ﴾ سے آسمان و زمین کی عظمت ظاہر ہو رہی ہے۔ (طنطاوی)