سورة مريم - آیت 64

وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور (ہم) فرشتے آپ کے رب کی مرضی (٤٠) کے بغیر (زمین پر) نہیں اترتے ہیں اسی کے پاس ان تمام باتوں کا علم ہے جو ہمارے آگے ہیں اور جو ہمارے پیچھے ہیں اور جو ان کے درمیان ہیں اور آپ کا رب (کسی بات کو) بھولنے والا نہیں ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ : ’’نَنْزِلُ‘‘ کے بجائے ’’ نَتَنَزَّلُ ‘‘ اس لیے فرمایا کہ باب تفعّل میں ٹھہر ٹھہر کر کام کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ ہم وقفے وقفے سے، ٹھہر ٹھہر کر تیرے رب ہی کے حکم سے اترتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: (( قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِجِبْرِيْلَ : مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَزُوْرُنَا أَكْثَرَ مِمَّا تَزُوْرُنَا فَنَزَلَتْ : ﴿ وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ لَهٗ مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا وَ مَا خَلْفَنَا ﴾ )) [بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿ وما نتنزل إلا بأمر ربک ....﴾ : ۴۷۳۱] ’’ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے کہا : ’’آپ ہماری ملاقات کے لیے جتنا آتے ہیں اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے؟‘‘ تو یہ آیت اتری : ﴿ وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ ﴾ “ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے یہ کلام سکھایا جبریل علیہ السلام کو کہ جواب میں یوں کہو۔ سو یہ کلام ہے اللہ کا جبریل کی طرف سے، جیسا کہ ’’ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ‘‘ ہم کو سکھایا۔ لَهٗ مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا....: یعنی صرف یہی نہیں کہ ہم اپنی مرضی سے اترنے کا اختیار نہیں رکھتے، بلکہ ہم اپنی مرضی سے کسی کام کا اختیار بھی نہیں رکھتے، کیونکہ جو کچھ ہمارے آگے ہے، یا ہمارے پیچھے ہے، یا اس کے درمیان ہے، یعنی دائیں اور بائیں ہے، چاروں جہتوں کی ہر چیز کا مالک صرف اللہ ہے۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ آسمان و زمین اور ان کے مابین اشیاء کا رب بھی وہی ہے۔ اس میں اوپر نیچے کی جہتیں اور ان کے درمیان کی ہر چیز بھی آ گئی، اس کے علاوہ جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اس میں ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانے بھی آ گئے، یعنی جس ہستی کا قبضہ، ملکیت اور ربوبیت اتنی مستحکم اور وسیع ہے کہ زمان و مکان میں سے کوئی چیز اس سے باہر نہیں، تو اس کی مرضی کے بغیر زمین پر اترنا تو کجا ہم کوئی حرکت بھی نہیں کر سکتے۔ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا : ’’ نَسِيًّا ‘‘ ’’فَعِيْلٌ‘‘ کے وزن پر مبالغہ ہے، بہت بھولنے والا۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ وہ بہت بھولنے والا تو نہیں مگر کم بھولتا ہے، بلکہ اس طرح مبالغے کا لفظ آئے تو مبالغے کی نفی مراد نہیں ہوتی بلکہ نفی میں مبالغہ مراد ہوتا ہے، اس لیے معنی یہ ہو گا کہ تیرا رب کبھی کسی طرح بھولنے والا نہیں۔ کبھی کا مفہوم ’’ كَانَ ‘‘ سے واضح ہو رہا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ ﴾ دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۸۲) اور انفال (۵۱) کی تفسیر۔ یہاں رب تعالیٰ سے بھولنے کی نفی کا مطلب یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام اگر دیر سے اتریں تو یہ مطلب نہیں کہ آپ کے رب نے آپ کو بھلا دیا ہے، جیسا کہ یہ مشرکین باتیں بنا رہے ہیں، وہاں بھولنے کا تو کسی طرح سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی حکمت کا تقاضا جبریل علیہ السلام کا اجازت کے ساتھ وقفے سے آنا ہی ہے۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ ضحیٰ کی تفسیر۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا أَحَلَّ اللّٰهُ فِيْ كِتَابِهِ فَهُوَ حَلاَلٌ وَمَا حَرَّمَ فَهُوَ حَرَامٌ وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَافِيَةٌ فَاقْبَلُوٓا مِنَ اللّٰهِ الْعَافِيَةَ فَإِنَّ اللّٰهَ لَمْ يَكُنْ نَسِيًّا، ثُمَّ تَلَا هٰذِهِ الْآيَةَ : ﴿ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا ﴾)) [مستدرک حاکم :2؍375، ح : ۳۴۱۹ و سندہ حسن (حكمت بن بشير) ]’’اللہ نے جو کچھ اپنی کتاب میں حلال کیا وہ حلال ہے اور جسے حرام کیا وہ حرام ہے اور جس سے خاموشی اختیار فرمائی وہ معاف ہے، کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کوئی چیز بھول جائے۔‘‘ پھر یہ آیت پڑھی : ﴿ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا ﴾ ۔‘‘ 4۔ ’’ وَ اصْطَبِرْ ‘‘ ’’صَبَرَ يَصْبِرُ‘‘ سے باب افتعال کا فعل امر ہے۔ ’’تاء‘‘ کو ’’طاء‘‘ کر دیا اور حرف زیادہ ہونے سے معنی زیادہ ہو گیا، خوب صابر رہ، یعنی اس کی بندگی کرتے رہیے اور اس راہ میں جو مصائب و مشکلات پیش آئیں ان کا پورے صبر کے ساتھ مقابلہ کیجیے، اگر ہماری طرف سے کبھی یاد فرمائی یا مدد یا تسلی دینے میں کچھ تاخیر ہو جائے تو گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّا: وہ دو شخص جن کا نام ایک ہو ایک دوسرے کے ’’سَمِيٌّ‘‘ (ہم نام)کہلاتے ہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ کے جتنے نام ہیں سب اس کی صفت ہیں، یعنی کوئی ہے اس کی صفت کا؟‘‘(موضح) یہاں ’’ سَمِيًّا ‘‘ کا معنی ’’نظیر‘‘ اور ’’مثیل‘‘ ہے۔ گویا اس آیت اور دوسری آیت : ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ﴾ [الشوریٰ : ۱۱ ] کا معنی ایک ہی ہے، یعنی جب اس جیسا آپ کسی کو نہیں سمجھتے تو پھر اس کے سوا چارہ کیا ہے کہ اس کے راستے پر چلتے رہیے۔ 6۔ ’’ وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ ‘‘ کے ربط کے لیے دیکھیے سورۂ قیامہ کی آیت (۱۶) : ﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ ﴾ کی تفسیر۔