سورة مريم - آیت 56

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ قرآن میں ادریس کا ذکر (٣٥) کیجیے، وہ بیشک بڑے سچے نبی تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ....: یہ چھٹا قصہ ادریس علیہ السلام کا ہے، بعض مفسرین نے ادریس علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے انبیاء میں شمار کیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ معراج کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ‘‘ (صالح نبی اور صالح بھائی کو مرحبا) کہہ کر خطاب کیا اور آدم اور ابراہیم علیھما السلام کی طرح ’’مَرْحَبًا بِالْوَلَدِ الصَّالِحِ‘‘ (صالح بیٹے کو مرحبا) نہیں کہا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کی یہی رائے ہے، کیونکہ ’’بَابُ ذِكْرِ إِدْرِيْسَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ‘‘ میں وہ حدیث معراج لائے ہیں۔ دیکھیے فتح الباری ’’ بَابُ ذِكْرِ اِدْرِيْسَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ‘‘ اس سے پہلے باب میں امام بخاری نے فرمایا : ’’ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنھم سے ذکر کیا جاتا ہے کہ الیاس ہی ادریس ہیں۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس قول کے لانے کو بھی امام بخاری کی اس رائے کا اظہار کہا ہے کہ ادریس علیہ السلام نوح علیہ السلام سے پہلے نہیں بلکہ بعد میں ہوئے ہیں، کیونکہ قرآن مجید میں الیاس علیہ السلام کو نوح یا ابراہیم علیھما السلام کی اولاد میں شمار فرمایا گیا ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۸۴، ۸۵) لیکن اکثر مفسرین کی تحقیق یہ ہے کہ ان کا زمانہ نوح علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے، چنانچہ بخاری نے ’’بَابُ ذِكْرِ إِدْرِيْسَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ‘‘ کے ترجمۃ الباب میں فرمایا : ’’ وَ هُوَ جَدُّ أَبِيْ نُوْحٍ وَ يُقَالُ جَدُّ نُوْحٍ عَلَيْهُمَا السَّلاَمُ ‘‘ یعنی وہ نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ نوح علیہ السلام کے دادا ہیں۔ ابن جریر، قرطبی اور ابن کثیر رضی اللہ عنھا کی رائے بھی یہی ہے، دلیل اسی سورت کی آیت (۵۸) کی تفسیر میں آ رہی ہے۔