وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا
اور آپ قرآن میں ابراہیم کو یاد (٢٣) کیجیے وہ بیشک سچے کردار کے اور نبی تھے۔
1۔ وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ : اس سورت کا اصل موضوع توحید و نبوت اور حشر کے واقعات بیان کرنا ہے۔ توحید کے منکر دو قسم کے لوگ تھے، ایک یہود و نصاریٰ جنھوں نے عیسیٰ اور عُزیر علیھما السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دے لیا اور اس طرح شرک میں مبتلا ہو گئے، چنانچہ پچھلی آیات میں مریم اور مسیح علیھما السلام کا قصہ بیان کرکے ان کے غلط عقائد کی تردید فرمائی۔ دوسرے مشرکین عرب، جو بت پرستی میں مبتلا تھے اور اس غلط عقیدے کے باوجود ابراہیم علیہ السلام کے دین پر قائم ہونے کے دعوے دار تھے۔ یہاں سے ابراہیم علیہ السلام کا قصہ بیان کرکے ان کی تردید مقصود ہے، تاکہ معلوم ہو کہ کس طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور قوم کو بت پرستی سے نکالنے کی کوشش کی اور بالآخر وطن اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر اللہ کی راہ میں ہجرت کی، مگر تم ہو کہ ایک طرف تو ان کی اولاد میں سے ہو اور ان کے دین پر ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہو، لیکن دوسری طرف بت پرستی کی لعنت میں گرفتار ہو اور توحید کی آواز اٹھانے والوں کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کر رہے ہو۔ اگر واقعی تم ابراہیم علیہ السلام کے دین کے پیرو ہو تو اس شرک پر عمل پیرا ہونے اور توحید پرستوں سے دشمنی کا کیا مطلب؟ 2۔ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا: ’’ صِدِّيْقًا ‘‘ ’’صِدْقٌ‘‘ سے مبالغہ ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کو صدیق اس لیے فرمایا کہ وہ بات میں بہت سچے تھے اور اپنے رب کے ساتھ معاملے میں بھی سچے تھے۔ اللہ کی خاطر گھر سے بے گھر ہونا، آگ میں جلنے کو گوارا کرنا، وطن سے بے وطن ہونا، پردیس میں اپنی عزت و ناموس کے خطرے میں ہونے کو برداشت کرنا، بیوی بچے کو بے آباد سنگلاخ وادی میں چھوڑنا، اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کے حکم کی تعمیل، اسّی(۸۰) برس کی عمر میں ختنے کا حکم ہونے پر فوراً عمل کرنا، یہ ان کے ہر معاملہ میں صدق کی چند مثالیں ہیں۔ ’’ صِدِّيْقًا ‘‘ کی مزید تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ نساء (۶۹) اور یوسف (۴۶)۔