فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِن بَيْنِهِمْ ۖ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِن مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ
پھر جماعتوں نے آپس میں (اس بارے میں) اختلاف کیا (١٩) تو کافروں کے لیے قیامت کے دن حاضری کے وقت بربادی ہوگی۔
1۔ فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَيْنِهِمْ: عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق حق بات تفصیل سے بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ پھر بنی اسرائیل سے باہر کے کسی گروہ نے نہیں بلکہ خود ان کے اپنے گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ ’’ مِنْۢ بَيْنِهِمْ ‘‘ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ یہود نے انھیں ولد الزنا اور جادوگر قرار دیا اور نصاریٰ کئی گروہوں میں بٹ گئے، کسی نے کہا اللہ مسیح ہی تو ہے۔ (مائدہ : ۷۲) کسی نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ (توبہ : ۳۰) کسی نے کہا مسیح تین (معبودوں) میں سے تیسرا ہے وغیرہ۔ مائدہ (۷۳) یہود نے ان کی شان گھٹانے کی کوشش کی تو نصاریٰ نے انھیں ان کی حد سے بڑھا دیا۔ ہاں اہل حق نے یہی کہا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ یہود ان کی شان گھٹانے اور ان پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے کافر ہو گئے اور نصاریٰ ان کی شان میں غلو کی وجہ سے کافر ہو گئے، البتہ اہل حق ایمان پر قائم رہے۔ 2۔ فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا....: ’’ فَوَيْلٌ ‘‘ پر تنوین (تہویل) یعنی اس کی ہولناکی کے اظہار کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’بڑی ہلاکت‘‘ کیا ہے۔ ’’ مَشْهَدِ ‘‘ یہاں راجح قول میں مصدر میمی ہے، یعنی اس عظیم دن میں حاضری کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے بہت بڑی ہلاکت ہے جنھوں نے کفر کیا، اگر اس دن کی حاضری نہ ہوتی تو یہ لوگ اس ہلاکت سے بچ جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف ’’ان لوگوں کے لیے ‘‘ کہنے کے بجائے صراحت سے فرمایا : ’’ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا بہت بڑی ہلاکت ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ اس ویل کا باعث کفر ہے۔ یوم عظیم پچاس ہزار سال کا دن (معارج : ۴) اور اللہ کے سامنے حساب کے لیے پیش ہونے کا دن ہے۔ [اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنَا حِسَابًا یَّسِیْرًا ]