سورة مريم - آیت 24

فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تو فرشتے نے اس کی نچلی جانب سے پکارا (١٢) کہ تم غم نہ کرو، تمہارے رب نے تمہارے نیچے کی جانب ایک چشمہ جاری کردیا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَا....: ’’ سَرِيًّا ‘‘ ’’سَرَي يَسْرِيْ ‘‘ (ض) (چلنا) سے ہو تو معنی ہے ندی، کیونکہ اس میں پانی چلتا ہے اور ’’سَرُوَ يَسْرُوْ‘‘ (شَرُفَ يَشْرُفُ) سے ہو تو معنی ہے سردار۔ مریم علیھا السلام کو ان کے نیچے سے کس نے آواز دی؟ اس کے متعلق مفسرین کے دو قول ہیں، ایک یہ کہ وہ جبریل علیہ السلام تھے، کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام نے قوم کے طعن و ملامت کے وقت ہی بات کی تھی۔ طبری نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے یہ بات نقل فرمائی ہے کہ یہ جبریل تھے اور عیسیٰ علیہ السلام نے قوم کے پاس لے جانے سے پہلے کلام نہیں کیا۔ مگر یہ روایت عوفی کے طریق سے ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ سعید بن جبیر، ضحاک، عمرو بن میمون اور قتادہ کا کہنا بھی یہی ہے کہ انھیں نیچے سے جبریل علیہ السلام نے آواز دی تھی اور ان کے نیچے ایک ندی چلنے کی بشارت دی تھی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ انھیں ان کے نیچے سے عیسیٰ علیہ السلام نے آواز دی تھی۔ ابن جریر نے اسے ترجیح دی ہے۔ اس کی تین وجہیں ہیں، ایک یہ کہ اگر کوئی مانع نہ ہو تو ضمیر قریب ترین مرجع کی طرف لوٹتی ہے اور یہاں اس سے پہلے قریب ترین ذکر عیسیٰ علیہ السلام کا ہے، یعنی ’’ فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ ‘‘ اور اگر جبریل علیہ السلام نے آواز دی ہوتی تو ان کا نام آنا تھا۔ دوسری یہ کہ اس وقت مریم علیھا السلام کا حوصلہ مضبوط کرنے کی ضرورت تھی اور ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا اس وقت بولنا ایک معجزہ تھا، جس سے انھیں اطمینان حاصل ہوا۔ تیسری یہ کہ قوم کے پاس جانے سے پہلے ان کے کلام کرنے سے مریم علیھا السلام کو یقین ہو جائے کہ قوم کے لوگوں کی ملامت کے وقت بھی یہ بول کر ان کی تسلی کر دیں گے۔ بظاہر ابن جریر کی بات زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے۔ (واللہ اعلم)