سورة مريم - آیت 10

قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً ۚ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

زکریا نے کہا، میرے رب ! مجھے اس کی کوئی نشانی (٦) بتا دے، اللہ نے کہا، آپ کے لیے نشانی یہ ہوگی کہ آپ تین رات تک تندرست ہوتے ہوئے لوگوں سے بات نہ کریں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّيْ اٰيَةً: یعنی کوئی ایسی نشانی بتا دے کہ ان حالات میں ہمارے ہاں لڑکے کی پیدائش ہونے والی ہو تو مجھے پہلے سے اس کا پتا چل جائے۔ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ....: ’’ سَوِيًّا ‘‘ تندرست، صحیح اعضا والا نہ گونگا نہ بہرا۔ یہاں تین راتوں کا ذکر ہے، جبکہ سورۂ آل عمران میں تین دنوں کا ذکر ہے، یعنی نشانی یہ ہے کہ تین دن رات صحیح سالم، تندرست ہوتے ہوئے تم لوگوں سے بات چیت نہ کر سکو تو سمجھ لو کہ حمل قرار پا گیا۔ لوگوں کے ساتھ کلام سے زبان بند ہو گئی تھی، اللہ کے ذکر اور تسبیح و تحمید سے نہیں۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۴۱)۔