يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا
جو (دعوتی کاموں میں) میرا اور آل یعقوب کا وارث بنے، اور میرے رب ! اسے تو سب کا محبوب بنا۔
1۔ وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا: ’’ رَضِيًّا ‘‘ ’’فَعِيْلٌ‘‘ بمعنی ’’مَفْعُوْلٌ‘‘ ہے، مطلب پسند کیا ہوا، یعنی وہ اللہ تعالیٰ اور لوگوں سب کا پسندیدہ ہو۔ اللہ جسے پسند کرلے لوگ بھی اس سے محبت کرتے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِذَا أَحَبَّ اللّٰهُ الْعَبْدَ نَادَی جِبْرِيْلَ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحْبِبْهُ فَيُحِبُّهٗ جِبْرِيْلُ فَيُنَادِيْ جِبْرِيْلُ فِيْ أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبُّوْهٗ فَيُحِبُّهٗ أَهْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ يُوْضَعُ لَهٗ الْقَبُوْلُ فِي الْأَرْضِ )) [بخاری، بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ صلوات اللّٰہ علیہم : ۳۲۰۹، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام سے کہتا ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تو بھی اس سے محبت کر، تو جبریل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرتے ہیں، پھر جبریل علیہ السلام آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتے ہیں، سو تم بھی اس سے محبت کرو، تو آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘ 2۔ زکریا علیہ السلام کی بیٹے کے لیے دعا ایک تو یہاں آئی ہے، ایک سورۂ آل عمران (۳۸) میں اور ایک سورۂ انبیاء (۸۹) میں۔ تینوں جگہ ہی الفاظ معانی کا خزینہ اور موتیوں کا نگینہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور بانجھ اور بوڑھی بیوی کو اولاد کے قابل بنا کر یحییٰ علیہ السلام عطا فرما دیے۔ دیکھیے سورۂ انبیاء (۹۰)۔