وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا
اور میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے مطمئن نہیں ہوں (کہ وہ دعوت کا کام جاری رکھیں گے) اور میری بانجھ ہے اس لیے تو مجھے اپنے پاس سے ایک لڑکا عطا کر۔
1۔ وَ اِنِّيْ خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَّرَآءِيْ....: ’’ الْمَوَالِيَ ‘‘ ’’مَوْلٰي‘‘ کی جمع ہے۔ یہاں مراد قریبی رشتے دار اور چچوں کے بیٹے ہیں جو اولاد نہ ہونے کی صورت میں وارث بنتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ مجھے ان میں سے کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو اس لائق ہو کہ میرے مرنے کے بعد بنی اسرائیل کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکے اور میرا اور آل یعقوب کا علمی و عملی وارث بن سکے، جس سے تیرے دین پر عمل اور اس کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رہ سکے، بلکہ مجھے ان سے خطرہ ہے کہ وہ دین کو بگاڑیں گے اور اپنی من مانیاں کریں گے، جیسا کہ سورۂ اعراف (۱۶۹) میں بنی اسرائیل میں سے کتاب کے وارث بننے والے بعض لوگوں کا حال ذکر ہوا ہے۔ 2۔ بعض لوگ اس آیت کو انبیاء کی دنیاوی جائداد کی وراثت کی دلیل بناتے ہیں، حالانکہ ان آیات ہی میں اس کا رد موجود ہے، کیونکہ زکریا علیہ السلام ایسے وارث کی دعا کر رہے ہیں جو ان کا اور آل یعقوب کا وارث بنے۔ ظاہر ہے کہ اولاد تو اپنے باپ کی دنیوی جائداد کی وارث ہوتی ہے، پورے خاندان اور قوم کی وارث نہیں ہوتی، اس لیے یہاں علمی ورثہ ہی مراد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لاَ نُوْرَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ )) [بخاري، ، فرض الخمس، باب فرض الخمس : ۳۰۹۳، عن أبي بکر رضی اللّٰہ عنہ ]’’ہمارا (یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ جو لوگ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنھا کو فدک اور دوسری جائدادوں میں سے ورثہ نہیں دیا انھیں سوچنا چاہیے کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو اور اپنی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنھا اور دوسری ازواج مطہرات کو بھی تو حصہ نہیں دیا اور دلیل کے طور پر یہ (مذکورہ بالا) حدیث پڑھی۔ پھر اگر انھوں نے حصہ نہیں دیا تو علی رضی اللہ عنہ ہی اپنی خلافت میں عباس اور حسن و حسین رضی اللہ عنھم کو اور امہات المومنین کو وہ حصہ دے کر اپنے فرض سے سبک دوش ہو جاتے، مگر ان کا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر کار بند رہنا اس حدیث کی عملی تائید و تصدیق ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ نمل کی آیت (۱۶)۔ 3۔ وَ كَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا : ’’عَاقِرًا ‘‘ وہ ہے جس کے ہاں اولاد نہ ہوتی ہو۔ یہ لفظ مرد اور عورت دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ’’ كَانَتْ ‘‘ کا لفظ ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے، اس لیے ترجمہ ’’شروع سے بانجھ ہے‘‘ کیا گیا ہے۔ اتنے الحاح و اصرار سے اپنی ضرورت بیان کرنے کے بعد اپنی صلب سے وارث عطا کرنے کی دعا کی، جو ان کی اور آل یعقوب علیہ السلام کی نبوت، علم اور اوصاف حمیدہ کا وارث بنے۔