إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
بے شک جو لوگ ایمان (306) لائے، اور اللہ کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہی لوگ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں، اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا اور بڑا مہربان ہے
1۔ هَاجَرُوْا:’’هَجَرَ يَهْجُرُ(ن) ‘‘ کا معنی کسی سے دل یا زبان یا بدن کے ساتھ جدا ہو جانا ہے اور ”هَاجَرُوْا“ اس میں سے باب مفاعلہ ہے، جس میں مبالغہ مقصود ہے، یعنی ’’کسی سے قطع تعلق کرکے الگ ہو جانا‘‘ مراد دار الکفر کو چھوڑ کر دار الاسلام میں آ جانا ہے۔ (مفردات) 2۔ جٰهَدُوْا:’’جَهَدَ يَجْهَدُ (ف)‘‘ کا مطلب ہے ’’کسی کام میں کوشش کرنا۔‘‘ ”جَاهَدَ مُجَاهَدَةً وَجِهَادًا“ کا معنی ہے ’’دشمن سے لڑنا۔‘‘(القاموس) ’’جَهَدَ‘‘ سے باب مفاعلہ کی وجہ سے اس کا معنی اپنی ساری کوشش صرف کرنا ہے۔ اس لیے اصحاب لغت نے اس کا معنی ’’لڑنا‘‘ کیا ہے کیونکہ کوشش کی انتہا یہی ہے۔ 3۔ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ:یعنی ایمان، ہجرت اور جہاد ایسے اعمال ہیں جن کے نتیجے میں دل کے اندر اللہ کی رحمت کی امید پیدا ہوتی ہے۔ جن لوگوں کا دامن ان سے خالی ہے وہ لاکھ اللہ کی رحمت کی امید کا دعویٰ کریں، حقیقت میں ان کے دل کے اندر رحمت کی امید پیدا نہیں ہوتی: جو میں سربسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں اس میں ان مجاہدوں کے لیے بشارت ہے جن کا ذکر حرمت والے مہینوں میں حملہ کرنے کے ضمن میں آیا ہے۔