سورة الكهف - آیت 62

فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِن سَفَرِنَا هَٰذَا نَصَبًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جب دونوں آگے بڑھ گئے تو انہوں نے اپنے خادم سے کہا کہ ہمارا کھانا لاؤ، ہم تو اپنے اس سفر سے بہت تھک گئے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اٰتِنَا غَدَآءَنَا : معلوم ہوا سفر کے لیے کھانا ساتھ لے جانا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے اور توکل کے منافی نہیں اور یہ کہ بھوک، پیاس، تھکاوٹ، بھول چوک، غرض انسان کو پیش آنے والی چیزیں انبیاء علیہم السلام کو بھی پیش آتی ہیں، کیونکہ وہ بھی انسان ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ آدمی کو جو عارضہ پیش آئے، اس کا ذکر کر سکتا ہے، بشرطیکہ اس کا ارادہ اللہ تعالیٰ کے شکوے کا نہ ہو۔ لَقَدْ لَقِيْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا: شاید اس تھکاوٹ کی وجہ اس نعمت کا احساس دلانا ہو کہ صحیح راستے پر طلب علم کے لیے جاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاص مدد شامل ہوتی ہے، جس سے تھکن نہیں ہوتی اور جب اس کی مدد نہ ہو تو انسان تھک کر رہ جاتا ہے۔