وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا
اور اس کے پاس دوسرے میوہ جات بھی ہوتے تھے تو اس نے اپنے ساتھی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں تم سے مال میں زیادہ ہوں اور جاہ و حشم کے اعتبار سے بھی تم سے زیادہ عزت والا ہوں۔
وَ كَانَ لَهٗ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهٖ ....: ’’ ثَمَرٌ ‘‘ کی تنوین تکثیر کے لیے ہے، یعنی اس کے علاوہ بھی اس کے پاس بہت سا پھل تھا یا بہت نفع تھا، کیونکہ نفع کو بھی ثمر کہہ لیتے ہیں۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد اولاد لی ہے کہ کھیتوں اور باغوں کے علاوہ اس کی اولاد بھی بہت تھی۔ اس کی دلیل آگے مومن کا قول ہے : ﴿اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّ وَلَدًا ﴾ [ الکہف : ۳۹ ] ’’اگر تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں مال اور اولاد میں تجھ سے کم تر ہوں۔‘‘ دوسرا آدمی مومن تھا مگر نادار تھا، اب اس کافر نے فخر سے گفتگو کرتے ہوئے اسے کہا، میرے پاس تم سے مال بھی زیادہ ہے اور آدمی بھی، یعنی اولاد، نوکر چاکر اور دوست۔ الغرض! اس بے ایمان نے اپنے مال و جاہ کے بھروسے پر مومن بھائی پر فخر کیا اور اسے اپنے باغات کا مشاہدہ کرانے کے لیے ساتھ لے چلا۔ (کبیر)