وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا
اور آپ پر آپ کے رب کی کتاب کا جو حصہ بذریعہ وحی پہنچ جائے اسے لوگوں کو پڑھ کر (١٦) سنا دیا کیجیے اس کے فیصلوں کو کوئی نہیں بدل سکتا اور آپ اس کے سوا کوئی اور جائے پناہ نہیں پائیں گے۔
1۔ وَ اتْلُ مَا اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ : یعنی اصحابِ کہف کے بارے میں جو بات آپ کو اس کتاب میں بتائی جا رہی ہے وہ بالکل کافی اور جامع مانع ہے۔ آپ اسی کو جوں کا توں پڑھ کر سناتے رہیے، یا یہ کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب ہے، یہی ان کو پڑھ کر سنائیں اور ان کی مخالفت کی پروا نہ کریں۔ 2۔ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ وَ لَنْ تَجِدَ ....: ’’ مُلْتَحَدًا ‘‘ کا معنی التحاد کی جگہ ہے، جو ’’لَحْدٌ‘‘ سے باب افتعال ہے، جس کا معنی مائل ہونا ہے۔ قبر کو بھی اسی لیے لحد کہتے ہیں کہ وہ ایک طرف ہٹی ہوتی ہے۔ چنانچہ ’’ مُلْتَحَدًا ‘‘ سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں آدمی ایک طرف جا کر پناہ لے لے۔ یعنی اگر آپ کسی کی خاطر داری سے اس کتاب کی تبلیغ میں کوتاہی کریں گے، یا اس میں کوئی رد و بدل کریں گے تو آپ کو اس کے سوا کہیں پناہ نہ ملے گی۔ اس مفہوم کی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ (۶۷) اور یونس (۱۵) یہ خطاب بظاہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر مقصود اہل کتاب اور کفار مکہ سب کو متنبہ کرنا ہے کہ تمھاری خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مالک کی کتاب میں کوئی رد و بدل کرنے والے نہیں۔ 3۔ اس آیت پر اور بعض علمائے تفسیر کے قول کے مطابق اوپر کی آیت پر اصحابِ کہف کا قصہ ختم ہو گیا۔ اس کے بعد دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے جس میں ان حالات پر تبصرہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو ان دنوں مکہ میں درپیش تھے۔