وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا
وہ نوجوان اپنے غار (١٥) میں تین سو سال اور مزید نو سال رہے۔
وَ لَبِثُوْا فِيْ كَهْفِهِمْ ....: بعض مفسرین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نو سالوں کا ذکر الگ اس لیے فرمایا کہ اگر شمسی سال ہوں تو تین سو سال اور قمری ہوں تو ان کے ٹھہرنے کی مدت تین سو نو سال تھی۔ ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ’’ثَلاَثَ مِائَةٍ وَ تِسْعَ سِنِيْنَ‘‘ (یعنی تین سو نو سال) کہنا کافی بھی تھا اور مختصر بھی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ شمسی اور قمری کے اس فرق کی کوئی دلیل نہیں۔ نو سالوں کو الگ ذکر کرنے کی وجہ آیات کے فواصل (آخری الفاظ) ہیں، جن سے کلام میں حُسن پیدا ہوتا ہے اور بلاغت کے لحاظ سے قرآن کے الفاظ ’’ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِيْنَ وَ ازْدَادُوْا تِسْعًا ‘‘ کے درمیان اور ’’ ثَلاَثَ مِائَةٍ وَ تِسْعَ سِنِيْنَ ‘‘ کے درمیان فرق زمین و آسمان کا ہے۔ بلاغت کا قاعدہ ہے کہ کبھی اختصار میں حُسن ہوتا ہے اور کبھی تطویل میں۔ اس لیے ان کے ٹھہرنے کی مدت تین سو نو سال ہی تھی، قمری سال تھے تو سب قمری اور شمسی تھے تو سب شمسی۔ تین سو شمسی اور تین سو نو قمری کی تفریق ایک ذہنی اُپج کے سوا کچھ نہیں۔ (محاسن التاویل)