وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ ۚ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ۖ وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ ۚ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا
اور آپ انہیں بیدار (١١) سمجھتے حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے اور ہم انہیں دائیں اور بائیں پلٹتے رہتے تھے اور ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے دونوں بازو پھیلائے ہوئے تھا، اگر آپ ان کی طرف جھانک لیتے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ پڑتے، اور ان کی کیفیت دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتے۔
1۔ وَ تَحْسَبُهُمْ اَيْقَاظًا وَّ هُمْ رُقُوْدٌ : ’’ اَيْقَاظًا ‘‘ جمع ہے ’’يَقِظٌ‘‘ کی اور ’’ رُقُوْدٌ ‘‘ جمع ہے ’’رَاقِدٌ‘‘ کی، یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے کہ تم انھیں دیکھو تو سمجھو گے کہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں، یعنی سوتے میں آنکھیں کھلی ہونے اور کروٹیں بدلنے کی وجہ سے تم انھیں جاگتے ہوئے سمجھو گے۔ اور ہم دائیں اور بائیں ان کی کروٹ بدلتے رہتے ہیں، تاکہ ایک ہی پہلو پر پڑے رہنے سے مٹی ان کے بدنوں کو نہ کھا جائے اور ان کا کتا اپنے دونوں بازو دہلیز پر پھیلائے ہوئے ہے، جیسے پہرا دے رہا ہے۔ ایک الگ تھلگ غار میں ان کا اس طرح لیٹا ہونا اور چوکھٹ پر کتے کا بیٹھا ہونا ایک ایسا دہشت ناک منظر پیش کرتا تھا کہ اگر کوئی شخص اندر جھانکنے کی کوشش بھی کرتا تو خوف کے مارے بھاگ کھڑا ہوتا، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں ایک لمبی مدت تک آرام و سکون سے سلائے رکھنے کا انتظام تھا۔ 2۔ کتے کے دہلیز پر بیٹھے رہنے اور غار میں نہ جانے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لاَ تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيْهِ كَلْبٌ وَلاَ تَصَاوِيْرُ )) [ بخاری، اللباس، باب التصاویر : ۵۹۴۹ ] ’’فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا یا تصویر ہو۔‘‘ البتہ کھیتی کے لیے، مویشیوں کی حفاظت کے لیے اور شکار کے لیے کتا رکھنے کی اجازت ہے۔