وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحْمَتِهِ وَيُهَيِّئْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا
اور جب تم نے اپنی قوم سے اور اللہ کے سوا ان کے معبودوں سے کنارہ کشی (٨) اختیار کرلی ہے تو غار میں پناہ لے لو، تمہارا رب تمہیں اپنی رحمت میں لے لے گا، اور تمہارے لیے تمہارے معاملے میں سہولت بہم پہنچائے گا۔
1۔ وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَ مَا يَعْبُدُوْنَ ....:’’ مِرْفَقًا ‘‘’’ اَلْاِرْتِفَاقُ‘‘ کا معنی فائدہ اٹھانا ہے، یعنی کوئی سہولت، آسانی۔ ان کی قوم اور بادشاہ میں سے کسی نے ان کی دعوت قبول نہ کی تو انھوں نے مشورہ کیا کہ جب تم ان لوگوں سے اور ان کے معبودوں سے علیحدہ ہو چکے تو اب یہاں رہ کر جان یا ایمان بچانا مشکل ہے، اس لیے کسی پہاڑ کے کھلے غار میں پناہ لے لو۔ رہا کھانا پینا اور دوسری ضروریات زندگی تو جب تم اپنے رب کی راہ میں ہجرت کر رہے ہو تو وہ خود اپنی رحمت کا دامن پھیلا دے گا اور ہر معاملے میں تمھارے لیے آسانی مہیا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی اس کا وعدہ فرمایا ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۰۰) باہمی مشورے سے یہ فیصلہ کرکے وہ ایک پہاڑ کے کھلے غار میں جا بیٹھے، نیند غالب آئی تو سو گئے۔معلوم ہوا کہ جب معاشرے میں رہ کر دین پر عمل ممکن نہ رہے تو ہجرت کے لیے پہاڑ ہی بہترین مقام ہیں، چنانچہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يُوْشِكُ أَنْ يَّكُوْنَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ، وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ، يَفِرُّ بِدِيْنِهِ مِنَ الْفِتَنِ )) [ بخاري، الإیمان، باب من الدین الفرار من الفتن : ۱۹، عن أبي سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ ] ’’قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال چند بکریاں ہوں گی، جن کو لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات کے پیچھے پھرتا رہے گا، اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے بھاگتا پھرے گا۔‘‘ جب کفار مکہ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ طے کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تین راتیں غار ثور میں چھپے رہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کفار سے محفوظ رکھا۔ دیکھیے سورۂ توبہ (۴۰)۔ 2۔ بعض لوگوں نے اس سے عزلت یعنی لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنے کا استدلال کیا ہے، حالانکہ اصحابِ کہف نے کفار سے علیحدگی اختیار کی، اپنوں سے نہیں، بلکہ آپس میں تو وہ اکٹھے ہی رہے۔ اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔(قاسمی)