سورة الكهف - آیت 9

أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ غار (٤) اور رقیم بستی کے رہنے والے ہماری (قدرت کی) نشانیوں میں سے ایک عجیب نشانی تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَمْ حَسِبْتَ ....:’’ الْكَهْفِ ‘‘ پہاڑ میں وسیع غار۔ ’’ الرَّقِيْمِ ‘‘ بمعنی ’’مَرْقُوْمٌ‘‘ یعنی لکھی ہوئی تختی یا سل یا کتاب والے۔ ان لوگوں کو ’’اصحاب الرقیم‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ جب وہ اچانک غائب ہو گئے اور بہت تلاش کے باوجود نہ ملے تو ان کے نام ایک تختی یا سل پر لکھ کر خزانے میں محفوظ کر دیے گئے، یا یہ کہ ان کے پاس شریعت کے احکام پر مشتمل لکھی ہوئی کتاب تھی۔(شنقیطی) یا یہ کہ ان کے جاگنے کے بعد لوگوں نے غار پر ایک تختی نصب کر دی جس پر ان کے نام لکھے ہوئے تھے۔ اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ ....: اس آیت کی تفسیرجو اکثر مفسرین، مثلاً طبری، ابن کثیر، شنقیطی رحمۃ اللہ علیھم نے کی ہے، یہ ہے کہ ’’ اَمْ ‘‘ منقطعہ انکار کے لیے ہے۔ شنقیطی رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرما رہے ہیں کہ کیا تم نے اصحابِ کہف کے قصے کو ہماری نشانیوں میں بڑی عجیب نشانی سمجھ لیا ہے۔ بے شک لوگ اسے بہت بڑی اور عجیب بات سمجھیں، مگر یہ ہماری قدرت اور عظیم نشانیوں کے سامنے کچھ عجیب نہیں، کیونکہ ہمارا آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کرنا، پھر زمین میں اس کی زینت کی ہر چیز پیدا کرنا، پھر قیامت کے دن اسے چٹیل میدان بنا دینا اصحابِ کہف کے معاملے سے بہت زیادہ عجیب ہے، جنھیں ہم نے تین سو نو (۳۰۹) سال سلائے رکھا، پھر دوبارہ اٹھا دیا۔ اس کی دلیل بہت سی آیات ہیں، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے ذکر سے پہلے زمین اور اس کی زینت پیدا کرنے، پھر اسے چٹیل میدان بنانے کا ذکر فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ قصہ ان چیزوں کے مقابلے میں کچھ عجیب نہیں جو اس سے کہیں بڑی ہیں۔ قرآن مجید میں بہت سی جگہ لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ آسمان و زمین کو پیدا کرنا لوگوں کو پیدا کرنے سے بہت بڑی بات ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ﴾ [ المؤمن : ۵۷ ] ’’یقیناً آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کرنا لوگوں کو پیدا کرنے سے بہت بڑا ہے۔‘‘ اور دیکھیے نازعات (۲۷ تا ۳۳) یاد رہے کہ ’’اصحاب کہف‘‘ اور ’’اصحاب رقیم ‘‘ ایک ہی گروہ کے نام ہیں اور صحیح بخاری میں مذکور غار کے اندر پناہ لینے والے تین آدمیوں کا اس واقعہ سے تعلق بہت بعید ہے، جن میں سے ایک والدین سے حسن سلوک کرنے والا، ایک پاک دامن رہنے والا اور ایک اجرت پر مزدور رکھنے والا تھا۔ اور یہ بات یاد رکھیں کہ اصحابِ کہف کے قصے، ان کے ناموں اور یہ کہ وہ زمین کے کس حصے میں تھے؟ اس سب سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے علاوہ کوئی بات ثابت نہیں جو قرآن سے زائد ہو۔ مفسرین نے ان کے متعلق بہت سی اسرائیلی روایات بیان کی ہیں جن کے قابل اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے ان کی طرف توجہ نہیں کی۔‘‘ (شنقیطی ملخصاً) ایک اور تفسیر جو پہلی تفسیر کے علاوہ صاحب روح المعانی اور ابن عاشور رحمۃ اللہ علیھما وغیرہ نے ذکر فرمائی ہے، یہ ہے کہ ’’حِسْبَانٌ‘‘ گمان اور علم دونوں معنوں میں آتا ہے، ہاں ’’ اَمْ ‘‘ انکار کے لیے نہیں بلکہ تقریری ہے، یعنی یہ بتانے کے لیے ہے کہ یقیناً یہ لوگ واقعی عجیب تھے۔ گویا یہ کہا گیا : ’’اِعْلَمْ أَنَّهُمْ عَجَبٌ‘‘ ’’جان لے کہ یقیناً وہ لوگ بڑے عجیب تھے۔‘‘ جیسا کہ تم کہتے ہو : ’’ أَعَلِمْتَ أَنَّ فُلاَنًا فَعَلَ كَذَا ‘‘ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ فلاں نے اس طرح کیا۔‘‘ یعنی یقیناً اس نے اس طرح کیا ہے۔ ان مفسرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے واقعے کا عجیب ہونا ذکر کرنے کے بعد تفصیل سے واقعہ بیان کر رہے ہیں، تاکہ مخاطب کو سننے کا شوق پیدا ہوجائے۔ یہ تفسیر بھی ہو سکتی ہے۔