سورة الإسراء - آیت 110

قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہہ دیجیے کہ تم لوگ اللہ کے نام سے پکارو یا رحمن (٧٠) کے نام سے پکارو، جس نام سے چاہو اسے پکارو، تمام بہترین نام اسی کے لیے ہیں اور آپ اپنی نماز نہ زیادی اونچی آواز سے پڑھیے اور نہ ہی بالکل پست آواز سے، بلکہ ان دونوں کے درمیان کا طریقہ اختیار کیجیے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ....: کفار مکہ’’رحمان‘‘نام سےنفرت کرتے تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس نام سے ان کی نفرت کا تذکرہ کئی آیات میں کیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَ مَا الرَّحْمٰنُ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَ زَادَهُمْ نُفُوْرًا ﴾ [ الفرقان : ۶۰ ] ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمان کو سجدہ کرو توکہتے ہیں اور رحمان کیا چیز ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے لیے تو ہمیں حکم دیتا ہے اور یہ بات بدکنے میں انھیں اور بڑھا دیتی ہے۔‘‘ ان کی اس نفرت کا ذکر سورۂ انبیاء (۳۶) میں بھی ہے۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ لکھا جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب سے فرمایا : ’’لکھو ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘‘ تو (کفار کے نمائندے) سہیل بن عمرو نے کہا : ’’رحمان! اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا رحمان کیا ہے؟ بلکہ لکھو ’’بِاسْمِكَ اللّٰهُمَّ‘‘ جیسا کہ (پہلے) لکھا کرتے تھے۔‘‘ [بخاری، الشروط، باب الشروط فی الجہاد....: ۲۷۳۱، ۲۷۳۲ ] اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اللہ کو پکارو یا رحمان کو، اللہ تعالیٰ کو اس کے جس نام سے بھی پکارا جائے وہ سب ہی بہترین ہیں، جب سب ہی بہترین ہیں تو یہ دونوں کیوں بہترین نہ ہوں گے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۱۸۰) کی تفسیر۔ وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ ....:’’ صَلَاةٌ ‘‘ سے مراد نماز میں قرآن مجید کی قراء ت ہے، چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ آیت اس وقت اتری جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپے ہوئے تھے۔ آپ جب اپنے اصحاب کو نماز پڑھاتے تو قرآن پڑھتے ہوئے اپنی آواز بلند کرتے، جب مشرکین اسے سنتے تو قرآن کو اور اس کے اتارنے والے کو گالی دیتے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا : (( ﴿وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ ﴾ أَيْ بِقِرَاءَتِكَ فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُوْنَ فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ ﴿وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا ﴾ عَنْ أَصْحَابِكَ فَلَا تُسْمِعُهُمْ «وَ ابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ﴾ )) [ بخاري، التفسیر، سورۃ بني إسرائیل باب : ﴿ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بھا ﴾ : ۴۷۲۲ ] ’’ وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی قراء ت کے ساتھ آواز بلند نہ کرو کہ مشرکین اسے سنیں گے تو اسے گالی دیں گے اور نہ اسے اپنے اصحاب سے چھپا کر پڑھو، کیونکہ آپ اسے ان کو سنا نہیں سکیں گے اور اس کے درمیان کا کوئی راستہ تلاش کرو۔‘‘ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ یہ آیت دعا کے متعلق نازل ہوئی۔ [ بخاري، التفسیر، سورۃ بني إسرائیل باب : ﴿ ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بھا ﴾ : ۴۷۲۳ ] ابوداؤد میں صحیح حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام اللیل میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پست آواز اور عمر رضی اللہ عنہ کو بلند آواز سے قراء ت کرتے ہوئے سنا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کچھ بلند اور عمر رضی اللہ عنہ کو کچھ آہستہ پڑھنے کے لیے فرمایا۔ [ أبوداؤد، التطوع، باب رفع الصوت بالقراء ۃ فی صلاۃ اللیل : ۱۳۲۹ ] آیت کے الفاظ قراء ت اور دعا دونوں معنوں کی گنجائش رکھتے ہیں۔