سورة الإسراء - آیت 107

قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہہ دیجیے کہ تم لوگ اس پر ایمان (٦٩) لاؤ یا نہ لاؤ، بیشک جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا تھا جب ان کے سامنے اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھڈیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں،۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا : یعنی تمھارے ماننے یا نہ ماننے سے اس کی عظمت نہ بڑھتی ہے اور نہ گھٹتی ہے۔ یہ تہدید و انکار کے طور پر ان لوگوں سے خطاب ہے جو قرآن کے واضح دلائل کی موجودگی میں معجزات کا مطالبہ کرتے تھے۔ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖ : یعنی تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، تم سے اچھے اور نیک اہل علم جو پچھلی آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے واقف ہیں اور وحی و نبوت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں، جیسے ورقہ بن نوفل، عبد اللہ بن سلام، سلمان فارسی اور نجاشی، وہ آپ کو رسول مانتے اور تسلیم کرتے ہیں کہ یہ وہی پیغمبر ہے جس کی بشارت تورات و انجیل میں دی گئی ہے۔ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ ....: ’’أَذْقَانٌ‘‘ ’’ذَقَنٌ‘‘ کی جمع ہے، ٹھوڑیاں۔ ’’ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا ‘‘ اصل میں ’’إِنَّهُ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا ‘‘ تھا، یعنی حنفاء اور اہل کتاب علماء کے سامنے جب قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں کہ اس اللہ کا احسان ہے کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پا لیا اور قرآن پر ایمان لے آئے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں کہ ہمارا رب وعدہ خلافی اور ہر عیب سے پاک ہے، یقیناً ہمارے رب کا وعدہ ہمیشہ پورا ہو کر رہتا ہے، اس لیے اس نے اپنے وعدے کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما دیا۔ 4۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس آیت سے استدلال کیا کہ’’ سُبْحٰنَ رَبِّنَا اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا ‘‘ کو سجدۂ تلاوت میں پڑھنا مستحب ہے۔ (اکلیل) يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا ....: قرآن کریم میں مذکور نصیحت سن کر شدت تاثر سے ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور قرآن سننا ان کے خشوع اور عجز و انکسار میں اور اضافہ کر دیتا ہے، ایسے اہلِ کتاب کی یہ کیفیت قرآن میں کئی جگہ بیان ہوئی ہے۔ دیکھیے مائدہ (۸۳، ۸۴) اور قصص ( ۵۲ تا ۵۴)۔ ٹھوڑیوں کے بل گرنے کے تکرار سے مقصود دو مختلف حالتوں کو ظاہر کرنا ہے، یعنی سجدہ ریز ہو کر اللہ کی تسبیح کرنا اور سجدے میں گر کر رونا۔ یا یہ سجدے کے تکرار کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ بار بار سجدہ کرتے ہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’نماز میں سجدہ دو بار ہوتا ہے، اس واسطے دوبار فرمایا کہ پہلی بار قرآن کی اعجازی تاثیر کے نتیجے میں اور دوسری بار خشوع و خضوع کے لیے۔‘‘ (موضح) واضح رہے کہ احادیث میں اللہ کے ذکر کے وقت (جس میں قرآن بھی شامل ہے) رونے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ چنانچہ حدیث میں عرش کا سایہ حاصل کرنے والے سات خوش بختوں میں ایک وہ بندہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ذَكَرَ اللّٰهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ )) [ مسلم : ۱۰۳۱۔ بخاری، الزکاۃ، باب فضل إخفاء الصدقۃ : ۶۴۷۹ ]’’جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہ پڑیں۔‘‘