سورة الإسراء - آیت 83

وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ ۖ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب ہم انسان کو نعمت (٥٢) دیتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور بندگی سے دور ہوجاتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ناامید ہوجاتا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذَا اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ ....:’’ الْاِنْسَانِ ‘‘ سے مراد یہاں کافر یا فاسق انسان ہے، صحیح مومن ایسا نہیں ہوتا۔ صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ ، وَلَيْسَ ذٰلِكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ )) [ مسلم، الزھد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ۲۹۹۹ ] ’’مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے، کیونکہ اس کا ہر معاملہ ہی خیر ہے اور یہ چیز مومن کے سو اکسی کو حاصل نہیں، اگر اسے کوئی خوشی پہنچے تو وہ شکر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، سو وہ بھی اس کے لیے خیر ہے۔‘‘ مزید دلیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورۂ ہود (۹ تا ۱۱) اور سورۂ معارج (۱۹ تا ۳۵) اس آیت سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص اگر احسان کے باوجود بے وفائی اور ناشکری کرے تو محسن کو احسان چھوڑنا نہیں چاہیے۔ تمام کفار و فساق کی ناشکری کے باوجود اللہ تعالیٰ دنیا میں ان پر بھی بے شمار انعامات جاری رکھے ہوئے ہے۔