سورة الإسراء - آیت 81

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ کہہ دیجیے کہ حق آگیا (٥٠) اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل تو مٹنے کی چیز ہوتی ہی ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ ....: اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ بشارت سنا دینے کا حکم دیا جو تھوڑے ہی عرصے کے بعد پوری ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ایک لکڑی کے ساتھ کچو کے مارتے جاتے تھے جو آپ کے ہاتھ میں تھی اور یہ کہتے جاتے تھے : ﴿وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا ﴾ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل ہمیشہ سے مٹنے والا ہے۔‘‘ ﴿قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ مَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَ مَا يُعِيْدُ ﴾ [ سبا : ۴۹ ] ’’حق آ گیا اور باطل نہ پہلی دفعہ کچھ کرتا ہے اور نہ دوبارہ کرتا ہے۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، سورۃ بني إسرائیل، باب : ﴿و قل جاء الحق وزھق الباطل ﴾ : ۴۷۲۰ ] اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا : ’’ہمیشہ سے‘‘ کا مفہوم ’’ كَانَ ‘‘ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ طنطاوی نے لکھا ہے : ’’أَيْ كَانَ غَيْرَ مُسْتَقِرٍّ وَلَا ثَابِتٍ فِيْ كُلِّ وَقْتٍ ‘‘ کہ باطل ہر دور میں یعنی ہمیشہ سے نا پائیدار ہے۔