رَّبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا
تمہارا رب وہ ہے جو سمندر میں کشتیوں (٤١) کو چلا جاتا ہے، تاکہ تم اس کی پیدا کی ہوئی روزی حاصل کرو، وہ تم پر نہایت رحم کرنے والا ہے۔
1۔ رَبُّكُمُ الَّذِيْ يُزْجِيْ لَكُمُ ....: ’’ أَزْجٰي يُزْجِيْ إِزْجَاءً‘‘ کا معنی آہستہ آہستہ چلانا ہے۔ ’’ أَزْجٰي فُلاَنٌ الْإِبِلَ‘‘ فلاں نے اونٹوں کو آہستہ آہستہ ہانکا۔ بادلوں کو آہستہ آہستہ چلانے کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ (دیکھیے نور: ۴۳) ’’الْفُلْكَ ‘‘ واحد جمع سب کے لیے یہی لفظ استعمال ہوتا ہے، بہت بڑی کشتی یعنی بحری جہاز۔ ’’ مِنْ فَضْلِهٖ ‘‘ قرآن مجید میں روزی کو اکثر فضل فرمایا ہے، کیونکہ دنیا میں جو بھی نعمتیں انسان کو میسر ہیں، یا آخرت میں عطا ہوں گی، وہ محض اللہ کا فضل ہیں، کسی کا اللہ پر کوئی حق واجب نہیں اور اگر کہیں بندوں کا حق کہا گیا ہے تو وہ بھی اللہ ہی کا فضل ہے کہ اس نے اسے اپنے ذمے لازم فرما لیا۔ زمین کا تقریباً ستر فیصد حصہ سمندر ہے، اس میں انسان کے کھانے پینے اور استعمال کے لیے بے حساب رزق موجود ہے۔ سمندر کے پانی میں ہزاروں ٹن وزنی جہاز اٹھانے کی صلاحیت اور صرف ہوا کے ذریعے سے جہازوں کو سیکڑوں ہزاروں میل دھکیل کر لے جانا صرف اللہ تعالیٰ کے مسخر کرنے کی وجہ سے ہے۔ اب اس کا مزید فضل ہوا تو انجن ایجاد ہو گئے، جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ﴿وَ يَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ [ النحل : ۸ ] (اور وہ پیدا کرے گا جو تم نہیں جانتے) میں فرمایا ہے۔ اس میں مسلمانوں کو سمندر کے بے شمار منافع، مثلاً نہایت آسان اور کم خرچ ذریعے سے تعلیم، تجارت اور دوسرے مقاصد کے لیے سفر کی سہولت، گوشت، زینت کی اشیاء، معدنیات، گیس اور تیل وغیرہ حاصل کرنے کی ترغیب بھی ہے، جن سے کفار فائدہ اٹھا رہے ہیں، کیونکہ سمندروں پر ان کا غلبہ ہے اور ظاہر ہے تیس فیصد خشکی پر بھی وہی غالب ہو گا جو ستر فیصد سمندر پر غالب ہے اور امت مسلمہ بری و بحری جہاد چھوڑنے کی وجہ سے دین و دنیا دونوں میں پیچھے رہنے پر قانع ہو چکی ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو نشانہ بازی، شہ سواری اور تیراکی سیکھنے کی بہت ترغیب دلائی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سلسلہ صحیحہ (۱؍۶۲۵، ح : ۳۱۵) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد ہی اسلام کو تمام دنیا کے ادیان پر غالب کرنا بیان فرمایا۔ 2۔ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا: سمندر میں جہازوں کو چلانے کی پہلی وجہ اللہ کے فضل کی تلاش بیان فرمائی، یہ دوسری وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ہمیشہ سے بے حد مہربان ہے۔ ہمیشہ کا مفہوم ’’ كَانَ ‘‘ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ طنطاوی کے الفاظ ہیں : ’’وَلِأَنَّهُ سُبْحَانَهُ كَانَ أَزَلاً وَ أَبَدًا بِكُمْ دَائِمَ الرَّحْمَةِ وَالرَّأْفَةِ ‘‘ ’’کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنے بندوں کے ساتھ نرمی و رحمت کرنے والا ہے۔‘‘