سورة الإسراء - آیت 11

وَيَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ ۖ وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آدمی (٥) کبھی اپنے لیے برائی اور بدبختی کی دعا اسی طرح کرنے لگتا ہے جس طرح بھلائی کی دعا کرتا ہے، انسان بہت ہی عجلت پسند واقع ہوا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ يَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ : ’’يَدْعُ ‘‘ اصل میں ’’يَدْعُوْ‘‘ تھا، مگر مصحفِ عثمانی کے خط میں اسے پڑھنے کے مطابق لکھ دیا گیا، کیونکہ یہ واؤ پڑھنے میں نہیں آتی، جیسا کہ : ﴿سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ﴾ [ العلق : ۱۸ ] میں بھی واؤ نہیں لکھی گئی، اسی لیے مسلمانوں نے اسی مصحف کے خط کی حفاظت کرتے ہوئے واؤ نہیں لکھی۔ فراء نے فرمایا کہ اگر یہ واؤ کے ساتھ لکھا جائے تو بھی درست ہو گا۔ (ابن عاشور) 2۔ ’’ دُعَآءَهٗ بِالْخَيْرِ ‘‘ یہ ’’كَدُعَائِهِ بِالْخَيْرِ‘‘ تھا، کاف حذف کرنے سے منصوب ہو گیا۔ مفعول مطلق کا بھی یہی معنی ہے، یعنی انسان بعض اوقات غصے میں یا اکتا کر اپنے لیے یا اپنے اہل و عیال کے لیے اللہ تعالیٰ سے بد دعائیں کرتا ہے، مثلاً اللہ کرے میں مر جاؤں، اللہ کرے تمھارا بیڑہ غرق ہو جائے، تمھارا خانہ خراب ہو جائے وغیرہ۔ انسان اسی طرح اصرار سے بددعا کرتا ہے جس طرح حالت اعتدال میں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے خیر کی دعا کرتا ہے، مثلاً یا اللہ! ہمیں بخش دے، یا اللہ! ہماری حفاظت فرما وغیرہ۔ اسی طرح وہ کفار کے ایمان نہ لانے پر ان کے لیے تباہی و بربادی کی فوراً بددعا کرنے لگتا ہے، حالانکہ اسے کیا خبر کہ ان میں سے کئی لوگوں نے آگے چل کر ایمان لے آنا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میں شروع سے بہت جلد بازی پائی جاتی ہے۔ ’’ كَانَ ‘‘ جلد بازی کے استمرار اور تمکن کو ظاہر کر رہا ہے اور ترجمہ بھی اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ ’’ عَجُوْلًا ‘‘ مبالغے کا صیغہ ہے، بہت جلد باز۔ اپنے حق میں بددعا کی ایک بدترین مثال ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کی وہ دعا ہے جس میں انھوں نے اپنے آپ پر پتھر برسانے یا عذاب الیم لانے کی بددعا کی تھی۔ دیکھیے سورۂ انفال (۳۲، ۳۳)۔ 3۔ مگر اللہ تعالیٰ ایسا مہربان ہے کہ بددعاؤں کو فوراً قبول نہیں فرماتا اور اگر وہ قبول کرے تو انسان تباہ و برباد ہو جائے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ یونس کی آیت (۱۱)۔