وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ
اور (مسلمانو) گر تم سزا دو (٧٨) تو اتنا ہی دو جتنی سزا تمہیں دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو گے تو (جان لو کہ) ایسا کرنا صبر کرنے والوں کے لیے بہت اچھی بات ہے۔
1۔ وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ: واؤ عطف سے معلوم ہوا کہ اس کا تعلق پچھلی آیت سے ہے کہ اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو بدلے میں اتنی زیادتی تم بھی کرو۔ اس آیت سے دو مسئلے واضح طور پر ثابت ہوتے ہیں، ایک یہ کہ قتل وغیرہ کا قصاص اسی طریقے سے لینا جس طریقے سے قاتل نے قتل کیا ہے، جائز ہے اور اس کی تائید اس یہودی سے قصاص والی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس نے ایک بچی کا سر دو پتھروں میں کچل دیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی اسی طرح قتل کرنے کا حکم دیا۔ [ دیکھیے مسلم، القسامۃ والمحاربین، باب ثبوت القصاص فی القتل....: ۱۷ ؍۱۶۷۲ ] اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے آپ کے چرواہوں کو قتل کرنے والے اور اونٹنیاں لے جانے والے مجرموں کو بھی قصاص میں اسی طرح آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں، جیسا کہ انھوں نے کیا تھا۔ [ دیکھیے بخاری، الحدود، باب المحاربین من أہل الکفر و الردۃ : ۶۸۰۲ ] اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ظالم کے ظلم کے برابر بدلہ جائز ہے زیادہ نہیں، فرمایا : ﴿ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ﴾ [ البقرۃ : ۱۹۴ ] ’’پس جو تم پر زیادتی کرے سو تم اس پر زیادتی کرو، اس کی مثل جو اس نے زیادتی کی۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مثلہ کرنے سے منع فرمایا اس سے مراد قصاص کے علاوہ صورتیں ہیں اور ابن ماجہ کی روایت (۲۶۶۷) [ لَا قَوَدَ إِلاَّ بِالسَّيْفِ ] (قصاص تلوار کے سوا جائز نہیں) ثابت نہیں، بلکہ ضعیف ہے، تفصیلی بحث ارواء الغلیل (۷؍۲۸۵، ۲۸۹، ح : ۲۲۲۹) میں ملاحظہ فرمائیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی کے مال میں خیانت کرے، یا اس کا مال یا کوئی چیز لے کر واپس نہ دے، پھر مظلوم کو اس کا مال یا کوئی چیز ہاتھ آ جائے، یا وہ اس کے پاس امانت رکھے تو اسے اپنے مال کے برابر اس میں سے رکھ لینا جائز ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’كِتَابُ الْمَظَالِمِ‘‘ میں ’’بَابُ قِصَاصِ الْمَظْلُوْمِ إِذَا وَجَدَ مَالَ ظَالِمِهِ‘‘ (مظلوم کا قصاص لینا جب اسے اس پر ظلم کرنے والے کا مال مل جائے) میں اسی آیت سے ابن سیرین رحمہ اللہ کا یہ استدلال نقل فرمایا ہے اور مزید احادیث سے اسے مدلل کیا ہے۔ بعض لوگ ایک روایت کی بنا پر اسے منع کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَدِّ الْأَمَانَةَ إِلٰی مَنِ ائْتَمَنَكَ وَلاَ تَخُنْ مَنْ خَانَكَ )) [ أبوداؤد، البیوع، باب في الرجل یأخذ حقہ من تحت یدہ : ۳۵۳۵ ] ’’جو شخص تمھارے پاس امانت رکھے اس کی امانت ادا کرو اور جو تمھاری خیانت کرے اس کی خیانت مت کرو۔‘‘ اگرچہ اس حدیث پر کلام ہے، مگر صحیح ماننے کی صورت میں بھی اپنا مال واپس لینے کو خیانت نہیں کہا جا سکتا۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’المحلٰي ‘‘ کی ’’ کتاب التفلیس‘‘ کے آخر میں اس مسئلہ پر نہایت عمدہ بحث تحریر فرمائی ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ 2۔ وَ لَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ: کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالم سے انھیں ان کا بدلہ خود لے کر دے گا اور اپنے ہاں سے انھیں صبر کا اجر عظیم عطا فرمائے گا، اللہ نے فرمایا : ﴿ وَ الَّذِيْنَ اِذَا اَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُوْنَ (39) وَ جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ ﴾ [ الشورٰی : ۳۹، ۴۰ ] ’’اور وہ لوگ کہ جب ان پر زیادتی واقع ہوتی ہے وہ بدلہ لیتے ہیں۔ اور کسی برائی کا بدلہ اس کی مثل ایک برائی ہے، پھر جو معاف کر دے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، بے شک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘ صحیح بخاری میں ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ وہ (صحابہ کرام) ذلت قبول کرنے کو ناپسند کرتے تھے، مگر جب قدرت پا لیتے تو معاف کر دیتے تھے۔ [ دیکھیے بخاری، المظالم، باب الانتصار من الظالم، بعد ح : ۲۴۴۶ ] 3۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے ’’ اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ ‘‘ سے لے کر یہاں تک کا خلاصہ بیان فرمایا : ’’پہلے جو فرمایا سمجھاؤ بھلی طرح سے، اس میں رخصت دی کہ بدی کے بدلے بدی بری نہیں، مگر صبر زیادہ بہتر ہے۔‘‘ (موضح)