ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
پھر ہم نے آپ پر وحی نازل کی کہ آپ ملت ابراہیم کی پیروی کیجیے جو سب سے کٹ کر اللہ کے ہوگئے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔
1۔ ثُمَّ اَوْحَيْنَا اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ ....: یعنی حلال و حرام اور دین سے متعلق تمام معاملات میں اصل نہ یہودیت ہے، نہ نصرانیت ہے اور نہ شرک کہ جس کا ارتکاب یہ کفار مکہ کر رہے ہیں، بلکہ اصل ابراہیم علیہ السلام کی ملت ہے جو خالص توحید سے عبارت تھی اور اس میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو بعد میں یہودیوں پر ان کی شرارت کی وجہ سے حرام کر دی گئیں، اس لیے آپ کے لیے پیروی کے لائق اگر کوئی ملت ہے تو وہ صرف ملت ابراہیمی ہے۔ (ابن کثیر) 2۔ لفظ ’’ ثُمَّ ‘‘ یہاں حقیقی ترتیب کے لیے نہیں بلکہ ترتیبِ ذکری کے لیے ہے اور آخر میں ابراہیم علیہ السلام کے فضائل میں سے یہ ایک بہت بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے، یعنی ان فضائل کے ساتھ پھر ابراہیم علیہ السلام کی اس فضیلت کو دیکھو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (جو اگرچہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ہیں، مگر ساری اولاد آدم کے سردار ہیں)کو بھی یہی حکم دیا گیا کہ آپ نے ملتِ ابراہیم کی پیروی کرنی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ملتِ ابراہیم کے پیروکار ہونے میں جہاں ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت ظاہر ہے وہیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت بھی ظاہر ہے کہ آپ کو ملتِ ابراہیم کی پیروی کا حکم ابراہیم علیہ السلام کے لیے باعث فضیلت ٹھہرا۔