قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
آپ کہہ دیجیے کہ اس قرآن کو جبریل نے میرے رب کے پاس سے برحق نازل کیا ہے، تاکہ یہ ایمان والوں کو ثابت قدم بنائے اور یہ مسلمانوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ اور ہر خیر کی خوشخبری دینے والا ہے۔
1۔ قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ : ’’نَزَّلَ‘‘ میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنے کا معنی پایا جاتا ہے۔ (دیکھیے بنی اسرائیل : ۱۰۶) ’’ رُوْحُ الْقُدُسِ ‘‘ یعنی جبریل علیہ السلام ، یہاں ’’ رُوْحُ ‘‘ (موصوف) ’’الْقُدُسِ ‘‘ (صفت) کی طرف مضاف ہے جو مصدر ہے۔ اس کا معنی طہارت اور پاکیزگی ہے، مگر یہاں مصدر بمعنی اسم مفعول ’’مُقَدَّسٌ ‘‘ ہے، یعنی ’’اَلرُّوْحُ الْمُقَدَّسُ‘‘ مبالغے کے لیے اسم مفعول کی جگہ مصدر لائے ہیں، یعنی وہ روح جو سراپا پاکیزگی و طہارت ہے، جیسے ’’رَجُلُ صِدْقٍ‘‘ اور ’’خَبَرُ سُوْءٍ‘‘ ہے، جو اصل میں ’’اَلرَّجُلُ الصَّادِقُ‘‘ اور ’’اَلْخَبَرُ السَّيِّءُ‘‘ تھا۔ ’’ مِنْ رَّبِّكَ ‘‘ کا مطلب ہے کہ قرآن نازل کرنا اللہ کی طرف سے ہے، کسی مخلوق کا کلام نہیں اور اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے، ورنہ تربیت مکمل نہ ہو سکتی اور ’’ بِالْحَقِّ ‘‘ کا مطلب ہے کہ اس میں کوئی بات ایسی نہیں جو باطل ہو، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر قیامت تک کے تمام ادوار کے تقاضوں کے عین مطابق اور حق ہے۔ 2۔ لِيُثَبِّتَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : تاکہ وہ ایمان والوں کو ایمان پر خوب قائم رکھے اور وہ ناسخ و منسوخ دونوں کو اللہ کی طرف سے سمجھیں۔ اس لیے جب وہ اس حکمت کو سمجھیں گے جو بعض احکام کے ناسخ و منسوخ ہونے میں پائی جاتی ہے تو ایمان پر ان کے قدم جمیں گے اور ان کے عقائد پختہ ہوں گے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’قرآن پاک میں اکثر اللہ تعالیٰ نے نسخ فرمایا ہے، اس پر کافر شبہ کرتے ہیں، اس کا جواب سمجھا دیا، یعنی ہر وقت پر موافق اس وقت کے حکم بھیجے تو یقین والوں کا ایمان قوی ہو کہ ہمارا رب ہر حال سے خبر رکھتا ہے۔‘‘ (موضح) 3۔ وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ: ’’ هُدًى ‘‘ یعنی ہر حال میں اس کے مطابق راہ سمجھا دے اور ’’ بُشْرٰى ‘‘ ہر کام پر ویسی خوش خبری سنا دے۔ (موضح) اس کا صحیح اور مکمل مطلب سمجھنے کے لیے سورۂ عنکبوت کی آیات (۵۰، ۵۱) کی تفسیر ضرور ملاحظہ فرمائیں۔