سورة النحل - آیت 101

وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب ہم کسی آیت (٦٤) کے بدلے دوسری آیت لاتے ہیں اور اللہ جو کچھ نازل کرتا ہے اسے خوب جانتا ہے، تو کفار (رسول اللہ) سے کہتے ہیں کہ تم خود ہی گھڑ لیتے ہو، (ایسی بات نہیں ہے) بلکہ اکثر اہل کفر کچھ جانتے ہی نہیں نہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذَا بَدَّلْنَا اٰيَةً مَّكَانَ اٰيَةٍ : یعنی پہلی آیت کا حکم منسوخ کرکے نیا حکم نازل فرماتے ہیں۔ نسخ پر بحث کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۱۰۶) اب یہاں سے کفار کے شبہات کا جواب دیا جا رہا ہے۔ (شوکانی) بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ : یعنی ان کے اکثر لوگ نسخ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مفتری اس لیے کہتے ہیں کہ انھیں پہلی شریعتوں کا علم نہیں، اگر ہوتا تو سمجھ لیتے کہ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے قاعدہ رہا ہے کہ وہ ایک حکم اتارتا ہے اور پھر جب چاہتا ہے اسے منسوخ کرکے دوسرا حکم دے دیتا ہے۔ ’’ اَكْثَرُهُمْ ‘‘ اس لیے فرمایا کہ کچھ لوگ سب کچھ جاننے کے باوجود ضد اور عناد کی وجہ سے آپ کو مفتری کہتے ہیں۔ 3۔ اس آیت کے دو مفہوم ہیں، ایک وہ جو اوپر گزرا، وہاں ’’ اٰيَةٍ ‘‘ سے مراد شرعی آیت اور حکم ہے، دوسرا معنی نشانی اور معجزہ ہے۔ اس وقت ’’ اٰيَةٍ ‘‘ سے مراد آیت کونیہ ہو گی، مثلاً ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں نہ جلنا، عصائے موسیٰ، ید بیضا، اللہ کے حکم سے مردہ کو زندہ کرنا وغیرہ۔ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ تعالیٰ نے آیات کونیہ کا نظام بھی بدل دیا اور بطور معجزہ بھی قرآن ہی نازل فرمایا اور صرف کسی ایک سورت کے مقابلے کا چیلنج دیا، جس کا جواب آج تک کوئی نہ دے سکا، نہ دے سکے گا۔ باقی انبیاء کی آیات یعنی معجزوں کے بدلے یہ آیت یعنی معجزہ ایسا نازل ہوا جو آپ کے بعد قیامت تک موجود ہے۔ جب کچھ جواب نہ آیا تو آپ کو مفتری کہہ دیا، فرمایا نبی مفتری نہیں بلکہ یہ بے چارے بے علم ہیں۔