وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ ۖ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
اور اس دن وہ لوگ اللہ کی جناب میں سر جھکا دیں گے اور وہ معبود ان سے غائب ہوجائیں گے جو ان کی افترا پردازی کا نتیجہ تھے۔
وَ اَلْقَوْا اِلَى اللّٰهِ يَوْمَىِٕذِ ا۟لسَّلَمَ....: ’’ السَّلَمَ ‘‘ کا معنی مطیع ہونا، فرماں بردار ہونا ہے۔ یعنی پہلے تو قسمیں کھا کر اپنے مشرک ہونے کا انکار کرتے رہیں گے، جیسا کہ سورۂ انعام (۲۲، ۲۳) اور سورۂ مجادلہ (۱۸) میں ہے، پھر اپنے بنائے ہوئے شرکاء کو دیکھ کر انھیں اپنے ساتھ پھنسانے کی کوشش کریں گے، جیسا کہ پچھلی آیت میں گزرا۔ جب وہ بھی انھیں صاف جھوٹا کہیں گے اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں رہ جائے گا، تو اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ کھڑے کرکے ہر طرح فرماں بردار اور سرتا پا عجز و انکسار بن جائیں گے اور وہ تمام حاجت روا، مشکل کشا، داتا اور دستگیر جو انھوں نے بنا رکھے تھے اور جن کی مشکل کشائیوں کی جھوٹی کہانیاں انھوں نے گھڑ رکھی تھیں، سب ان سے گم ہو جائیں گے، کوئی نظر نہیں آئے گا۔ بعض لوگوں کو یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اس مقام کی طرح قرآن کی بہت سی آیات میں مشرکین کا بولنا، عذر کرنا، قسمیں اٹھانا مذکور ہے اور کئی آیات میں ان کے مونہوں پر مہر لگنا یا انھیں بولنے کی اجازت نہ ملنا مذکور ہے۔ ترجمان القرآن ابن عباس رضی اللہ عنھما نے تطبیق یہ دی ہے کہ یہ سب الگ الگ مواقع کا بیان ہے، کیونکہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہو گا، کبھی ان کا حال کچھ ہو گا کبھی کچھ۔ [ مسلم، الزکوٰۃ، باب إثم مانع الزکوٰۃ : ۹۸۷]