وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ
اور جب ظالم لوگ عذاب (٥٣) کو دیکھ لیں گے، تو ان سے وہ عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔
1۔ وَ اِذَا رَاَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ....: ’’وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا‘‘ سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ موحدین تو اپنے گناہوں کی سزا پا کر، یا شفاعت سے، یا محض اللہ کی رحمت سے عذاب سے نکل آئیں گے، فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ ﴾ [ النساء : ۱۱۶ ] ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا۔‘‘ جب کہ ان ظالموں کے عذاب دیکھ لینے کے بعد نہ اس میں کمی کی جائے گی، نہ ایک لمحے کی مہلت دی جائے گی، بلکہ اسی وقت عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔ ’’ الْعَذَابَ ‘‘ سے مراد کفار کے ہر طبقے کے لیے خاص عذاب مراد ہے۔ 2۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کے عذاب میں تخفیف نہیں کی جائے گی، جب کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، جب آپ کے پاس آ پ کے چچا کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا : (( لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِيْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُجْعَلُ فِيْ ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ يَغْلِيْ مِنْهُ دِمَاغُهُ )) [ بخاری، مناقب الأنصار، باب قصۃ أبي طالب : ۳۸۸۵۔ مسلم : ۲۱۰ ] ’’امید ہے کہ قیامت کے دن اسے میری شفاعت پہنچے گی تو اسے کم گہری آگ میں ڈالا جائے گا جو اس کے ٹخنوں تک پہنچے گی، اس سے اس کا دماغ کھول رہا ہو گا۔‘‘ صحیح بخاری ہی میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ)) ’’اگر میں نہ ہوتا تو وہ آگ کے درک اسفل میں ہوتا۔‘‘ [ بخاری، مناقب الأنصار، باب قصۃ أبي طالب : ۳۸۸۳ ] ان دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ کفار کے حق میں کوئی سفارش آگ سے نکلنے کے لیے قبول نہیں ہو گی، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کی سفارش ان کے والد کے حق میں قبول نہیں ہو گی اور سورۂ شعراء (۱۰۰) اور سورۂ مدثر (۴۸) میں کفار کے متعلق سفارش نہ ہونے کا ذکر ہے۔ ہاں صحیح بخاری کی اس حدیث سے بظاہر کفار کے حق میں سفارش سے عذاب کی تخفیف ثابت ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ جنت کے طبقات کی طرح جہنم کے بھی درکات ہیں۔ جنت کا سب سے اعلیٰ طبقہ فردوس ہے اور جہنم کا سب سے سخت حصہ درک اسفل ہے۔ یہ فیصلہ ہونے کے بعد کہ کس کافر کو کون سا عذاب ہو گا جب انھیں جہنم کی طرف روانہ کیا جائے گا تو جہنم کے سات دروازوں میں سے ہر ایک کے لیے جو دروازہ اور جو عذاب مقرر ہے وہ وہاں پہنچیں گے، اسے دیکھنے کے بعد پھر انھیں کوئی تخفیف یا مہلت نہیں ملے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی، خدمت اور سفارش کی وجہ سے ابوطالب کا فیصلہ پہلے ہی سب سے ہلکے عذاب کا ہو چکا ہو گا، اب وہاں جانے کے بعد اسے مزید تخفیف یا جہنم سے خلاصی حاصل نہیں ہو سکے گی۔